پانی سے محروم ہوتی دنیا کا مستقبل کیسا ہوگا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)دنیا بھر میں خشک سالی شدت اختیار کرتے ہوئے زندگیوں کا ایسا سست رو خاموش قاتل بنتی جا رہی ہے جس سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں۔
یہ بات ارضی بنجر پن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری ابراہیم تھیا نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جاری کنونشن کے ریاستی فریقین کی 16 ویں کانفرنس میں کہی ہے۔
اس کانفرنس میں دنیا کو خشک سالی سے تحفظ دینے کے لیے ایک نیا معاہدہ طے پانے کی توقع ہے۔ یہ معاہدہ اس مقصد کے لیے متاثرہ علاقوں میں محض امدادی سرگرمیوں کے بجائے خشک سالی سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کی تیاری میں معاون ہو گا۔
اس کے علاوہ، کانفرنس کے شرکا ارضی بنجرپن کے باعث ہونے والے زمینی ضیاع کا سلسلہ روکنے اور ارضی بحالی کے بہترین طریقہ ہائے کار پر بات چیت بھی کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں خشک سالی کے بارے میں درج ذیل حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔
خشک سالی کی شدت میں اضافہ
خشک سالی ایک فطری مظہر ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی اور ناپائیدار ارضی انتظام کے باعث حالیہ دہائیوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
2000 کی دہائی کے بعد دنیا میں خشک سالی کے واقعات کی رفتار اور شدت میں تقریباً 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سے زراعت، آبی تحفظ اور 1.8 ارب لوگوں کے روزگار کو خطرات لاحق ہیں جبکہ غریب ترین ممالک اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
خشک سالی محدود ہوتے وسائل بشمول پانی پر جنگوں کا سبب بھی بن سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ لوگ مزید پیدواری مقامات کا رخ کرنے لگتے ہیں۔
’کوئی ملک محفوظ نہیں‘
گزشتہ 3 سال میں 30 سے زیادہ ممالک نے اپنے ہاں خشک سالی کے باعث ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا۔ ان میں انڈیا اور چین سےلے کر امریکہ، کینیڈا اور اسپین جیسے بلند آمدنی والے ممالک اور یوروگوئے، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا جیسے ترقی پذیر ملک بھی شامل ہیں۔
پانی کی قلت کے نقصانات
پانی کی قلت کے باعث یورپ کے دریائے رائن میں اناج کی نقل و حمل متاثر ہوئی اور وسطی امریکا کی نہر پانامہ میں پانی کی سطح کم ہو جانے کے باعث بین الاقوامی تجارت کا نقصان ہوا۔ اسی طرح جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں پن بجلی کی مقدار میں کمی دیکھنے کو ملی جو اپنی ضرورت کی 60 فیصد سے زیادہ بجلی پانی سے پیدا کرتا ہے۔
بارش سے محرومی
امریکا کے نیویارک سٹی میں واقع ایک اربن پارک میں رواں مہینے درختوں کی آگ بجھانے کے لیے فائر فائٹر طلب کرنا پڑے۔ سرما کے اس مہینے میں شہر کئی ہفتوں تک بارش سے محروم رہا ہے۔
کوئی بھی ملک اس مسئلے سے محفوظ نہیں
ابراہیم تھیا کا کہنا تھا کہ اب ایسی جگہوں پر بھی خشک سالی دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں پہلے اس کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی ملک اس مسئلے سے محفوظ نہیں ہے۔ 2050 تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی یا تقریباً 7 ارب لوگ خشک سالی سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوں گے۔
ارضی بنجر پن اور پسماندگی
خشک سالی کم ہی کسی ایک جگہ اور وقت سے مخصوص ہوتی ہے اور اس کا سبب محض بارشوں کی کمی نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کے پیچیدہ عوامل مشترکہ طور پر بھی اس کا سبب ہوتے ہیں جو عام طور پر موسمیاتی تبدیلی یا ناقص ارضی انتظام سے جنم لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی پہاڑی علاقے میں برف ختم ہو جائے تو وہاں کی زمین فوری طور پر بنجر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں یہ زمین موسمی شدت کے واقعات کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہاں خشک سالی اور سیلاب آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
تباہ کن اثرات
جب یہ آفات آتی ہیں تو ان کے نتیجے میں کئی طرح کے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں، گرمی کی لہریں اور سیلاب انتہائی شدت اختیار کر لیتے ہیں جس سے لوگوں کی زندگی اور روزگار کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اس کی طویل مدتی انسانی، سماجی اور معاشی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
ایک کے بعد دوسری خشک سالی کے نتیجے میں آبادیوں، معیشتوں اور ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں ارضی بنجرپن اور پسماندگی کا سلسلہ تقویت پکڑتا رہتا ہے۔
ترقی اور سلامتی کا مسئلہ
دنیا میں تقریباً 70 فیصد دستیاب تازہ پانی ایسے لوگوں کے زیراستعمال ہوتا ہے جن کی زندگی کا دارومدار زمین پر ہے۔ ان میں بڑی تعداد کم آمدنی والے ممالک کے کسانوں کی ہے جنہیں بہت محدود تعداد میں متبادل روزگار میسر ہوتے ہیں۔ ان میں 2.5 ارب لوگ نوجوان ہیں۔
پانی کے بغیر ان کے پاس نہ تو خوراک ہو گی اور نہ ہی وہ زمین کی بنیاد پر روزگار تک رسائی پا سکیں گے۔ اس کا نتیجہ نقل مکانی، عدم استحکام اور تنازعات کی صورت میں نکلے گا۔
خشک سالی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں
‘یو این سی سی ڈی’ کی ایگزیکٹو سیکرٹری آندریا میزا نے کہا ہے کہ خشک سالی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے یہ ترقی اور انسانی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے، جس پر تمام شعبوں میں اور ہر انتظامی سطح پر فی الفور قابو پانا ہو گا۔
استحکام کے لیے منصوبہ بندی
انسان کی لائی موسمیاتی تبدیلی، ناقص ارضی انتظام اور مسئلے سے نمٹنے کے لیے امدادی طریقہ کار پر زور دیے جانے کے باعث خشک سالی مزید سخت اور تیز رفتار ہوتی جا رہی ہے۔ عام طور پر نچلی سطح پر پانی کی فراہمی میں کمی سے پیدا ہونے والے شدید موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید منصوبہ بندی اور مطابقت پذیری درکار ہے۔
ایک ارب درختوں کی کاشت
زمبابوے میں نوجوانوں کے زیرقیادت نچلی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم ملک میں ایک ارب درخت لگا کر زمین کو دوبارہ کارآمد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ جبکہ غرب الہند کے ملک ہیٹی میں کسان یہ یقینی بنانے کے لیے درختوں پر شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں کہ ان درختوں کو کاٹا نہ جا سکے جن پر یہ انحصار کرتی ہیں۔
مالی میں ایک نوجوان کاروباری خاتون مورنگا درخت کی پیدوار کو فروغ دے کر لوگوں کے لیے روزگار پیدا کر رہی ہے اور علاقے میں معاشی استحکام لانے کے لیے کوشاں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے انسانی مصائب کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ محض امداد اور بحالی کی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ سستے ہوتے ہیں۔
آئندہ اقدامات
‘کاپ 16’ میں ممالک اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بدترین صورت اختیار کرتی خشک سالی پر اجتماعی طور سے کیسے قابو پایا جائے اور پائیدار ارضی انتظام کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ کانفرنس کے پہلے روز اس مسئلے پر دو تحقیقی کام بھی پیش کیے گئے۔
عدم مساوات کا فروغ
ان میں ایک ‘خشک سالی کا عالمی جغرافیہ’ ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ خشک سالی سے کون سے خطرات لاحق ہوتے ہیں اور وہ توانائی، زراعت، دریائی نقل و حمل اور بین الاقوامی تجارت جیسے شعبوں سے کیسے منسلک ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان سے عدم مساوات فروغ پاتی ہے، مسلح تنازعات جنم لیتے ہیں اور صحت عامہ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ کانفرنس میں خشک سالی کے مقابل مضبوطی پیدا کرنے کے بین الاقوامی اتحاد (آئی ڈی آر اے) کے زیراہتمام مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ایک معلوماتی پلیٹ فارم کی رونمائی بھی ہوئی۔
‘آئی ڈی آر اے’ اس کنونشن کے زیراہتمام 70 سے زیادہ ممالک اور تنظیموں کا اتحاد ہے جو خشک سالی کے خلاف عملی اقدامات کے لیے پرعزم ہیں۔
ارضی بحالی کی قیمت
اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں خشک سالی اور ناقص ارضی انتظام سے متاثرہ زمین کو 2030 تک بحال کرنے کے لیے 2.6 ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے۔
‘کاپ 16’ میں ‘خشک سالی سے تحفظ کے لیے عالمی شراکت’ کو 2.15 ارب ڈالر کی فراہمی کے ابتدائی وعدے سامنے آئے ہیں۔