پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کیا مستقبل ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں ہر کچھ عرصے کے بعد ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے خبریں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ بہت سے ممالک میں ڈیجیٹل کرنسیوں میں لین دین اور کاروبار کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور چونکہ پاکستانی عوام کی بھی ایک بڑی تعداد بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیوں میں خاصی دلچسپی رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خبریں وقتا فوقتا گردش کرتی رہتی ہیں۔
اب ایک بار پھر کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی کو قانونی شکل دینے کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مکمل فریم ورک بھی تیار کیا گیا ہے اور اگر یہ فریم ورک منظور ہو جاتا ہے۔ تو اس کے بعد اسٹیٹ بینک کی جانب سے پاکستان کی اپنی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائی جائی گی۔
جب اسٹیٹ بینک سے رابطہ کیا تو اسٹیٹ بینک کے ترجمان خبیب عثمانی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایسا کوئی میسج ارسال نہیں کیا گیا۔ اگر اس قسم کی کوئی بھی چیز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے تو اس کا اسٹیٹ بینک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے کوئی پیش رفت کی گئی تو اسٹیٹ بینک کی آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے مطلع کر دیا جائے گا۔
اسٹیٹ بینک اپنےموقف پر قائم ہے
ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی کو قانونی شکل نہ دینے کے اپنے پہلے موقف پر قائم ہے، اور تمام مالیاتی اداروں کو کرپٹو میں لین دین سے گریز کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔
تاہم دوسری جانب پاکستانیوں کی کرپٹو کرنسیوں میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور ا س کا اندازہ دسمبر 2021 میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 2021 میں تقریباً 20 بلین ڈالر کی کرپٹو کرنسی کی قدر ریکارڈ کی، جو کہ ملک کے موجودہ وفاقی ذخائر سے زائد ہے۔
پاکستان 2020-21 کے دوران کرپٹو کرنسی اپنانے کے انڈیکس میں ہندوستان اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں کرپٹو کرنسیوں کا رجحان تیزی سے زور پکڑ رہا ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی کرپٹو کرنسی لانچ کر دی ہے، جس کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن تیزی سے کئی بلین ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔
پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کیا فیوچر ہے؟ اور کرپٹو کرنسی پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مفید ثابت ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے معاشی ماہر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ پوردی دنیا میں کرپٹو کرنسی کو تیزی سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ ایک بلاک چین ٹیکنالوجی ہے،پاکستان کو نئی ایجادات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ کیونکہ دنیا کا معاشی نظام تبدیل ہو رہا ہے۔
ٹیکنالوجیز کو اپنانا ہوگا
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہتا ہے تو پاکستان کو اس طرح کی ٹیکنالوجیز کو اپنانا ہوگا۔
اسٹیٹ بینک جس ڈیجیٹل کرنسی کی بات کرتا ہے وہ تو ہم پہلے سے ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ایزی پیسہ، صدا پے، جیز کیش اور منی ٹرانسفر کی دیگرایپس۔
اسٹیٹ بینک اور حکومت دونوں سوئے ہوئے ہیں
ان کہنا تھا کہ جو اسٹیٹ بینک کی جانب سے حالیہ پالیسی پر بات کی گئی ہے۔ اس میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ بالکل فضول ہے۔ پاکستان میں اسٹیٹ بینک اور حکومت دونوں ہی سوئے ہوئے ہیں۔ اگر وقت پر کرپٹو کر ملک میں قانونی شکل نہ دی گئی تو پاکستان دنیا کہ مقابلے میں پیچھے رہ جائے گا۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ معیشت کے نفع اور نقصان بہت بعد میں آتے ہیں۔ سب سے پہلی بات ملک میں نئی ایجادات کو اپنایا جائے تاکہ پوری دنیا کے فنانشل سسٹم کے مطابق چلا جا سکے۔
اسٹیٹ بینک ریویو کر رہا ہے
معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مہتاب حیدر نے اس بارے میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اب تک کرپٹو کرنسی کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسٹیٹ بینک ابھی بھی اس کو ریویو کر رہا ہے۔ مگر اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا کہ اس کی پاکستان میں قانونی حثیت کیا ہے۔
تقریباً ایک سال قبل جب آئی ایم ایف کا ٹیکنیکل مشن پاکستان آیا تو ان کی جانب سے بھی حکومت کو کہا گیا کہ کرپٹو کرنسی کو باقاعدہ کرنسی کا درجہ دیا جائے۔اور اس کو ٹیکس نیٹ میں بھی لایا جائے۔
مہتاب حیدر کے مطابق اسٹیٹ بینک کو مزید کرپٹو کرنسی کے حوالے سے چیزیں دیکھ بچار کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اور اس کی پروٹیکشن کے حوالے سے کوئی فریم ورک تیار کرنا چاہیے۔
ان کا مزید کہناتھا کہ اسٹیٹ بینک کو کرپٹو کرنسی کے حوالے سے اپنا واضح فیصلہ سنا دینا چاہیے۔ اس میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگر اسٹیٹ بینک نے اجازت دینی ہےتو پاکستانی جو سرمایہ کاری کا سوچ رہے ہیں وہ وقت پر سرمایہ کاری کر سکیں اور اگر اجازت نہیں دینی تو وہ پاکستانی جن کی پہلے سے سرمایہ کاری ہے، وہ وقت پر اس کو نکال لیں، تاکہ پاکستانی مشکل وقت سے بچ جائیں۔ اور اگر اسٹیٹ بینک اجازت دیتا ہے تو یقیناً اس سے معیشت کو بھی مثبت اثر ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کو اس پر اپنا واضح فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں کرپٹو کرنسیوں کے حوالے سے کیا آرا پائی جاتی ہیں؟
معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ کرپٹو ایک نیا تصور ہے، اور اس کی ٹریڈنگ کی اجازت اسٹیٹ بینک کی جانب سے نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی کرنسی ہوتی ہے وہ کسی ملک کی ضمانت پر جاری ہوتی ہے۔ اگر کرپٹو کو قانونی شکل دے دی جائے تو کرپٹو کسی ریاست کی ذمہ داری پر جا رہی ہوگی۔ اگر کوئی بھی کرنسی بنا لی جائے تو اس کے پیچھے بہت سے سوالات ہوتے ہیں۔ اس کا ریگولیٹری فریم ورک کیا ہے؟ کس بنیاد پر جاری ہوئی ہے؟ اور کیسے جاری ہوئی ہے؟۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو کرپٹو کے حوالے سے بہت مبہم ہیں۔
راجہ کامران کے مطابق ڈیجیٹل کرنسی میں خریداری بھی آسان نہیں ہے۔ کرپٹو موبائل یا سسٹم پر ڈاؤن لوڈ کی جائے تو وہ ڈیوائس کی میموری بہت زیادہ لے لیتی ہے۔ دوسرا بجلی زیادہ کنزیوم کرتی ہے۔ بہت سی ایسی کرپٹو مائننگ کمپنیاں، جو کرپٹو جاری کرتی تھیں۔ چین کی جانب سے ان کو بین کر دیا گیا، کیونکہ وہ بہت بڑے پیمانے پر بجلی کو استعمال کر رہی تھیں۔ اور وہاں بجلی کرائسس پیدا ہو رہا تھا۔ اسی لیے پوری دنیا میں کرپٹو پر ذرا سختی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ کرپٹو مائننگ بہت زیادہ وقت اور بجلی لیتی ہے۔ اور دوسرے وجہ یہ ہے کہ کرپٹو کسی کرنسی کی صورت میں نہیں ہے۔ اس کی اہمیت کا تعین بائی نانس اکاؤنٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ کرپٹو کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان نہیں ہے۔
راجہ کامران کا کہنا تھا کہ کرپٹو کا اس کے علاوہ ایک شرعی معاملہ بھی ہے۔ کوئی بھی روپیہ یا کوئی بھی کرنسی کسی بھی چیز کے لین دین کا ایک ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر میرے پاس پرانا 100 کا نوٹ ہے میں بینک سے نیا نوٹ 100 کا لونگا تو اس پیسے کی قدر میں کوئی اونچ نیچ نہیں آئے گی۔ دونوں کی ویلیو برابر ہی رہے گی۔
اسلام میں کرنسی کی تجارت منع ہے۔ جسے روپے پر بیع کہتے ہیں۔ لیکن کرنسی سے تجارت کر سکتے ہیں۔ جیسے پیسے دے کر کچھ خرید لیا جائے۔ کرپٹو کرنسی کے طور پر استعمال نہیں ہو رہی۔بلکہ کرپٹو کی ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری یہ ذاتی رائے ہے کہ شرعی اعتبار سے بھی کرپٹو میں ابھی کچھ ابہام ہیں۔ لوگ کرپٹو میں خریدوفروخت کم بلکہ سٹے بازی کر رہے ہیں۔
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی لوگوں کے موبائل والٹ میں نہیں بلکہ بائنانس والٹ میں ہوتی ہے۔ جس پر ٹریڈنگ ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ اگر کسی نے ایچ بی ایل میں اپنے پیسے رکھے ہوئے ہیں، وہ جب چاہے آن لائن پیمنٹ کر کے چیز خرید سکتا ہے۔ اور وہ پیسے پڑے پڑے کم یا زیادہ بھی نہیں ہو رہے۔ جب میں نے اپنی بینک ایپ کے ذریعے اپنی اصلی کرنسی کو ڈیجیٹل فارم میں تبدیل کر لیا ہے تو مجھے ڈیجیٹل کرنسی کی کیا ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کے میم کوائن کے حوالے سے بھی خدشات پائے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ’میم کوائن‘ میں اندرونی قدر کی کمی ہے اور یہ انتہائی غیر مستحکم سرمایہ کاری ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *