امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستان پرکس طرح اثراندازہوں گی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)تاحال امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے اس لیے امریکی انتخابات ہوں یا نئے امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری، دنیا بھر کی نظریں واشنگٹن کی طرف رہتی ہیں کیونکہ امریکی پالیسیاں اور اقدامات ساری دنیا کے نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
پیر 20 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے بعد جو تقریر کی اس میں اُنہوں نے ’سب سے پہلے امریکا‘ کی بات کی، جس سے ہمیں سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کا ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ یاد آیا، کیا اس کا مطلب ایک ایسا امریکا ہے جو دنیا کی قیادت سے دستبردار ہو کر صرف اپنے بارے میں سوچے گا؟
صدرٹرمپ نے اپنی تقریر میں امریکا آنے والے مہاجرین کے بارے سخت پالیسیاں وضع کرنے کی بات کی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے امریکی صنعتوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ سماجی پالیسیوں کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ تقریب حلف برداری سے قبل غزہ امن معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہو گا۔
صدرٹرمپ کا پہلا دورِصدارت حکومتِ پاکستان کے حوالے سے زیادہ اچھا نہیں تھا، کیونکہ اس دورِحکومت میں پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات عائد کرکے فوجی امداد میں کمی کی گئی۔
صدر ٹرمپ کا ’سب سے پہلے امریکا‘ کا نعرہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لیے امریکی امداد میں کمی آئے گی۔
صدر ٹرمپ کے گزشتہ عرصہ صدارت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اوراُن کی موجودہ اعلان کردہ پالیسیاں دنیا بھر اور خصوصاً پاکستان پر کس طریقے سے اثرانداز ہوں گی اس حوالے سے ہم نے خارجہ امور کے ماہرین کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان پر دباؤ بڑھے گا، عبدالباسط
پاکستان کے سابق سینیئرسفارتکارعبدالباسط نے وی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی سربراہی میں نئی امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کوئی ترجیح نہیں اورہمیں امریکا اوربھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
کیا پاکستان کو اب شراکت داری کے لیے کسی اور ملک کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے؟ عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان پہلے ہی سے تذویراتی شراکت داری موجود ہے اور موجودہ حالات میں اس کا کوئی متبادل دستیاب نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کے مہاجرین مخالف اقدامات سے کیا پاکستان متاثر ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عبدالباسط کا کہنا ہے کہ امریکا سفر کرنے والے پاکستانیوں اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے حوالے سے یقینناً فرق پڑے گا۔
ایمبیسڈر عبدالباسط نے ایک اشاعتی ادارے کے لیے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتقام کے جذبے سے بھرپور واپسی کرچکے ہیں اور اُن کی افتتاحی تقریر ان کے جارحانہ عزائم کا پتا دیتی ہے۔
’دنیا بھر کے ممالک ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس ذہنی رجحان کو لے کر مضطرب ہیں کہ اُن کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے اور خارجہ پالیسی کے ضمن میں وہ عارضی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔‘
اب امریکی خودغرضی کا شکوہ کیا جائے گا، حسین حقانی
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیراورمحقق حسین حقانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پرلکھتے ہوئے موقف اختیارکیا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی پر نمایاں افراد کے ساتھ فوٹو کھنچوانے سے متاثر نہیں کیا جاتا، ان تصویروں سے صرف اپنے مُلک میں ہی تاثر دیا جاسکتا ہے۔
’اصل سوال یہ ہے کہ آپ ایشوز پر کہاں کھڑے ہیں، پہلے دنیا بھر میں امریکی مداخلت کی شکایت ہوتی تھی، اب امریکی خود غرضی کا شکوہ کیا جائے گا، بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکا آزاد دنیا کی قیادت سے دستبردارہورہا ہے۔‘
حسین حقانی کے مطابق امریکی سوچ اب یہ ہے کہ امریکی قیادت کی پہلی ذمہ داری امریکی شہریوں کی خوشحالی ہی ہے، دوسرے اپنی اپنی فکرکریں، امریکی پالیسی سازوں سے سالہا سال کے تعلقات اور ڈائیلاگ کے سوا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کی مہاجرین مخالف پالیسوں کے بارے میں حسین حقانی نے ایکس پراپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ بھارت نے امریکا میں غیرقانونی طورپرمقیم اپنے شہریوں کی وطن واپسی میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔
’پاکستان کو بھی اپنے غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی قبول کرنی چاہیے، سینکڑوں پاکستانی امریکی جیلوں میں ہیں، کئی نے اپنے پاسپورٹ پھاڑ یا جلا دیے تھے اس لیے ان کی شہریت کا ثبوت نہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *