امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 30 ہزار تارکین وطن کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کے لیے تیار


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز کہا کہ وہ پینٹاگون اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے کو گوانتانامو بے میں 30 ہزار تارکین وطن کے لیے حراستی مرکز قائم کرنے کا حکم دیں گے۔
گوانتانامو بے، کیوبا، میں امریکی بحریہ کے اڈے میں پہلے سے ہی ایک تارکین وطن کی سہولت موجود ہے، جو کہ غیر ملکی دہشت گردی کے مشتبہ افراد کے لیے اعلیٰ حفاظتی امریکی جیل سے الگ ہے-
جسے کئی دہائیوں سے مختلف مواقع پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، جس میں ہیٹی اور کیوبا کے باشندوں کو سمندر سے ریسکیو کرکے وہاں گرفتار رکھنا بھی شامل ہے۔
صدر ٹرمپ کے سرحدی امور کے مشیر ٹام ہومن نے اس اعلان کے بعد کہا کہ انتظامیہ گوانتانامو بے میں پہلے سے موجود سہولت کو وسعت دے گی جسے امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ ایجنسی چلائے گی۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے کا اعلان کیا، جس کے تحت محکمہ دفاع اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کو گوانتاناموبے میں 30 ہزار تارکین وطن کے لیے حراستی مرکز تیار کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس سہولت کا استعمال بدترین مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے غیر قانونی غیر ملکیوں کو حراست میں لینے کے لیے کیا جائے گا، جو امریکی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
’ان میں سے کچھ اتنے برے ہیں کہ ہم ان کی گرفتاری کے لیے ان کے ملکوں پر بھروسہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ واپس آئیں، اس لیے ہم انہیں گوانتانامو بھیج رہے ہیں، یہ ہماری استعداد کو فوری طور پر دوگنا کر دے گا۔‘
اس کے فوراً بعد، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک میمورنڈم پر دستخط کیے، جس میں تارکین وطن کی تعداد کا ذکر نہیں تھا لیکن توسیعی سہولت میں ’اضافی حراستی جگہ‘ کا مطالبہ کیا تھا۔
بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹام ہومن نے کہا کہ اس مرکز کو ’بدترین سے بدترین‘ تارکین وطن کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم کے مطابق اس سہولت کے لیے درکار رقم کے معاملے پر انتظامیہ اس ضمن میں کانگریس میں مفاہمت اور فنڈز مختص کرنے والوں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
گوانتاناموبے میں حراستی مرکز 2002 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر حملوں کے بعد مشتبہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو حراست میں رکھنے کے لیے قائم کیا تھا، جیل میں اب 15 قیدی رہ گئے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دو ڈیموکریٹک پیشرو، بارک اوباما اور جو بائیڈن نے گوانتانامو جیل کو بند کرنے کی کوشش کی لیکن وہ صرف یہاں کے قیدیوں کی تعداد کم کرنے میں کامیاب رہے، جبکہ صدر ٹرمپ نے اسے جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے طویل عرصے سے گوانتانامو جیل کی مخالفت کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہاں نہ صرف گرفتار شدگان کو غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جاتا ہے بلکہ پوچھ گچھ کے سخت طریقے جو تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔
گوانتانامو جیل کو ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ کی ابتدائی زیادتیوں کی علامت بھی قرار دیا گیا ہے، تاہم صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ تارکین وطن کے لیے حراستی مرکز ایک علیحدہ سہولت ہے۔
کیوبا کے صدر میگوئل ڈیاز کینیل نے صدر ٹرمپ کے منصوبے کو ’بربریت کا عمل‘ قرار دیا، پناہ گزینوں کے حامی گروپوں نے گوانتانامو مہاجر مرکز کو بند کرنے اور کانگریس سے وہاں مبینہ زیادتیوں کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل امریکی فوج نے کہا تھا کہ وہ امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کو کولوراڈو میں بکلی اسپیس فورس بیس پر تارکین وطن کو حراست میں لینے کی اجازت دیدے گی۔
یہ فیصلہ ملک سے باہر تارکین وطن کی امریکی فوج کی جانب سے ملک بدری کی پروازوں اور میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر 1,600 سے زیادہ فعال فوجیوں کی تعیناتی کے بعد سامنے آیا ہے، جنہیں صدر ٹرمپ کے گزشتہ ہفتے امیگریشن پر ہنگامی اعلان کے بعد کیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *