8 فروری احتجاج: علی امین گنڈاپور کی عدم دلچسپی اور جنید اکبر کا جارحانہ انداز
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف نے 8 فروری کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کرکے ملک بھر میں احتجاج اور خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں جلسے کا اعلان کیا ہے۔
اس جلسے کے کامیاب انعقاد کے لیے خیبر پختونخوا کے نئے صوبائی صدر جنید اکبر خان دن رات تیاریوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے ناراضگی کے باجود بھی ملاقات کرکے تیاریوں پر بات کی ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس میں پارٹی تنظیمی امور اور جلسے کی تیاریوں پر بات ہوئی۔
جلسے میں بھرپور شرکت کا اعلان، تیاریوں میں عدم دلچسپی
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ممبر قومی اسمبلی شیر افضل مروت کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی، جس میں 8 فروری کو صوابی میں ہونے والے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے حکمت عملی طے کی گئی۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے بتایا کہ وہ جلسے میں بھرپور شرکت کریں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے باخبر ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ صوبائی صدرات سے محرومی کے بعد پارٹی امور میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لے رہے۔ وہ نئے صوبائی صدر جنید اکبر سے تعاون کرنے کو بھی تیار نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پشاور میں 8 فروری احتجاج کے حوالے سے نئے صدر کی سربراہی میں کئی میٹنگز ہوئیں، لیکن علی امین اس میں شریک نہیں ہوئے۔ اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی دلچسپی رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق شکیل خان کو کابینہ سے ہٹانے پر عاطف خان گروپ اور علی امین کے مابین اختلافات شدید اختیار کر گئے تھے اور شکیل خان کی حمایت پر علی امین نے موجودہ نئے صدر جنید اکبر کو اس وقت فوکل پرسن کے عہدے سے ہٹا دیا تھا، جبکہ ان وہ ان کی جگہ خیبر پختونخوا کے صدر بنائے گئے۔ یہ تبدیلی علی امین گنڈاپور کے لیے پریشان کن ہے۔ علی امین بظاہر تو ساتھ ہیں لیکن تیاریوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔
گروپنگ
ذرائع کا کہنا ہے کہ علی امین کی عدم دلچسپی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ عاطف خان گروپ کا پارٹی میں آگے آنا ہے۔ علی امین گروپ عاطف خان گروپ کو ایکسپوز کرنے کے نام پر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور عاطف خان کی عون چوہدری کے ساتھ تصویر کے معاملے سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔
ذرائع کے مطابق سب کو پتا ہے کہ جنید اکبر خان عاطف خان ہم خیال ہیں اور پارٹی میں ان کا اپنا گروپ ہے۔
علی امین گنڈاپور اور جنید اکبر کی ملاقات
علی امین گنڈاپور کو ہٹا کر جنید اکبر کو صدر بنانے کے بعد پارٹی میں بظاہر تو کسی کو کوئی اختلاف نہیں، لیکن اس کے بعد پارٹی میں عملاً اندرونی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔
جنید اکبر کو صدر بنانے کے بعد پارٹی کارکن خوش ہیں، لیکن علی امین گروپ میں خوشی نظر نہیں آرہی۔ علی امین گنڈاپور نے جنید اکبر کو مبارکباد تک نہیں دی۔ تاہم گزشتہ روز دونوں میں پہلی بار ملاقات ہوئی تھی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، اور جلسے کی تیاریوں پر بات ہوئی اور اسے کامیاب بنانے پر اتفاق ہو گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ علی امین چونکہ وزیر اعلی ہیں اوت وسائل اور طاقت کا محور بھی ہیں اس کے باوجود بھی جنید اکبر نے ان سے کوئی تعاون یا مدد نہیں مانگی۔
کیا احتجاج کے حوالے سے علی امین اور جنید اکبر کی رائے مختف ہے؟
علی امین گنڈاپور کو ہٹا کر جنید اکبر کو صوبائی صدر بنانے کے بعد احتجاج اور دھرنوں اور پارٹی امور کی صوبائی سطح پر ذمہ داری اب جنید اکبر کو دی گئی ہے۔ احتجاج کے حوالے سے ان کی رائے بھی علی امین گنڈاپور سے بہت مخلتف ہے اور وہ ریاست کے حوالے سے بھی سخت مؤقف رکھتے ہیں۔
پارٹی کے باخبر ذرائع کا بتانا ہے کہ علی امین وزیر اعلیٰ بننے کے پہلے دن سے سخت احتجاج اور دھرنوں کے حق میں نہیں تھے، اسی لیے وہ صرف بیان بازی تک محدود تھے۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور اسلام آباد مارچ کے حق میں بھی نہیں تھے اور ڈی چوک جانے کو اب بھی غلط فیصلہ مانتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس جنید اکبر ملک گیر سخت احتجاج کے حامی ہیں۔ انہون اعلان بھی کیا ہے خیبر پختونخوا میں موٹرویز اور دیگر اہم روڈز کو بند کرنا چاہیے، جب کہ جو علی امین گنڈاپور ایسا بالکل بھی نہیں چاہیے ہیں۔
جنید اکبر کی حکمت عملی کیا ہے؟
نئے صدر جنید اکبر صوابی جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ہم خیال رہنماؤں سے مسلسل مشاورت کر رہے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق صوابی جلسہ ان کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔ جسے کامیاب بنا کر وہ علی امین گروپ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے بغیر بھی پارٹی آگے لے جا سکتے ہیں اور ورکرز ان کے ساتھ ہیں۔
جنید اکبر کی نظریں
جنید اکبر کی نظریں مالاکنڈ ڈیژون اور پشاور پر لگی ہیں، جہاں سے ورکرز نکل کر جلسے کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جبکہ جنوبی اضلاع سے ان کو کچھ خاص امید نہیں۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ جنید اکبر اسپیکر ہاؤس میں بھی اراکین کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے تھے، انہوں نے پشاور سے منتخب اراکین کو خصوصی ہدایت کی ہے کہ وہ ورکرز کو نکالنے میں اپنا میں کردار ادا کریں۔
انہوں نے ہم خیال اراکین کو واضح طور پر بتایا ہے کہ اس جلسے کو کامیاب بنا کر عمران خان کو پیغام دیں گے کہ خیبر پختونخوا میں ورکرز ان کے ساتھ ہیں۔