پاکستان ڈوبنے اور بچنے کے دوراہے پہ کھڑا ہے،پشتون ، بلوچ ، سندھی مجبور ہونگے کہ ایک نئے آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کردیں ،محمود اچکزئی


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین وتحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ہمارا خطہ بڑے خطرناک حالت میں ہے، پشتون ، بلوچ ، سندھی مجبور ہونگے کہ ایک نئے آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کردیں کیونکہ یہ آئین نہ خود کو نہ پاکستان کو بچاسکتا ہے۔ مذاکرات اس لیے ہوں گے کہ آپ نے عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا ہے اسے واپس کرو۔آئین کا دفاع نہ کرنیوالوں کے خلاف آئین بغاوت کا حکم دیتا ہے۔ ڈویژن کو کرنل اور صوبوں کو ایک بریگیڈیئر چلا رہاہے ، شف شف سے کام نہیں چلے گا، 8فروری 2024کا الیکشن عمران خان جیت چکا تھا اورحکومت پر کسی اور کو بٹھایا گیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے پاکستان اسلام کو ایک ایسا قلعہ ہے جس میں اسلام نظر بند ہے۔ واحد ملک ہے جس میں اپنے بچوں کو کرپٹ کیا جارہا ہے ، ان کی فائلیں بنائی جاتی ہیں ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے پھر اُن کو وزیر اعظم بنایا جاتا ہے ۔سوئی گیس بلوچوں کی ہے یہاں اسلام آباد میں ہر جگہ سوئی گیس ہے لیکن سوئی میں بگٹی مائین خس وخاشاک اور لپائی سے روٹیاں بناتی ہیں، یہ خطرناک حالت ہے ہم سب کو اکھٹے ملکر اس حالت سے نکلنا ہوگا۔ محتاط بات اس الیکشن کے 40دن پہلے یہی ہے کہ یہ انتخابات ٹھیک نہیں ہونگے۔ ہم نے بڑے واضع انداز میں کہا کہ ہمارے ساتھی دوست غلط راہ پر چل پڑے ہیں تو ہم نے عاقبت اسی میں سمجھی کہ ہم ان پارٹیوں سے اپنے فاصلے بڑھائیں اور اور اس الیکشن میں حصہ نہ لیں۔ جن جن سے بھی سوال کیا گیا بڑے محتاط انداز میں کسی نے یہ بات نہیں کی کہ ہماری سٹیبلشمنٹ اس ملک میں ایک جمہوری حکومت چلانا نہیں چاہتی اور ساری بیماریوں کی جڑ یہی بات ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ ابھی اس ارادے میں اتنے پکے ہیں کہ ان کی سیاسی کشمکش میں ہمارا ملک ایک بار ٹوٹااور جو باقی ماندہ ملک ہے وہ بھی اسی گھوڑے پر سوار ہیں اور ہم بھی اچھے بچوں کی طرح ان کے ماتحت بنتے ہیں صدر بنتے ہیں ۔ آج پاکستان کی حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے ۔ ملک کو بچانا اور چلانا چاہتے ہیں تو ہم سب نے یہ وعدہ کرنا ہوگا حلف لینا ہوگا کہ ہم سیاست میں مداخت نہیں کرینگے اور اس آئین کی پاسداری کرینگے۔اپنی فوج کو دوہری ذمہ داریوں سے ہمیں نکالنا پڑیگا۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے اسلام آباد میں صحافی علی فرقان کی کتاب 9مئی سے 8فروری کا سفر کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ محمود خان اچکزئی نے کہاکہ پاکستان ہم سب کا ملک ہے اس میں نہ کوئی کسی کا آقا ہے نہ کوئی کسی کا غلام ہے ۔ بانی خود ایک بہت بڑے وکیل اور بہت بڑے آئینی ماہر تھے پاکستان میں رہنے والے لوگ پشتون ،بلوچ، سندھی ، سرائیکی ، پنجابی اقوام ان کا مشترکہ فیڈریشن ہے ۔ نہ کسی قوم کو اس کا تاریخی وطن نہ کسی نے زکوۃ میں دیا ہے نہ خیرات میں اس پہ رہنے والے لوگ جو مختلف زبانیں بولتے ہیں ان سب کی الگ الگ ثقافت ہیں ۔ ملک کو چلانے کا واحدراستہ یہی تھا کہ اس کو ایک ایسا جمہوری فیڈریشن بنایا جاتا جس میں آئین کی بالادستی ہوتی ، منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوتا اور تمام پالیسیاںمنتخب پارلیمنٹ سے نکلتی لیکن بدقسمتی سے پچھتر سال میں ہم اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ کتاب جو آج چھپ چکی ہے اس میں تمام انٹرویوز دینے والے سیاسی کارکن ہیں محتاط بات اس الیکشن کے متعلق یہی ہے سب کی جانب سے کہ یہ ہونیوالے الیکشن ٹھیک نہیں ہورہے ۔ بعض نے واضع انداز میں کہا ہے کہ ہمیں پتہ چلا ہے ہماری دوست غلط راستے پر چل پڑے ہیں ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اس ملک کا ایک آئین ہے جس میں تمام اداروں کے فریم ورک واضع اور معلوم ہیں ۔ دُکھ ہوتا ہے ہم ایسے بھی پاگل نہیں ہیں کہ آسمان سے ایک پتھر گرتا ہو اور ہم سر رکھ دیتے ہیں نہیں بھائی ایسا نہیں ہے۔ پاکستان آج ڈوبنے اور بچنے کے دوراہے پہ کھڑا ہے۔ اگر تو ہم اس ملک کو بچانا اور چلانا چاہتے ہیں تو ہم سب نے یہ وعدہ کرنا ہوگا حلف لینا ہوگا کہ ہم سیاست میں مداخت نہیں کرینگے اور اس آئین کی پاسداری کرینگے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ فاٹا آپ کا وہ بازو شمشیر تھا کبھی آپ کو ضرورت ہی نہیں پڑی کہ وہاں آپ کے لیے مشکلات ہوں کیا ہوا آج آگ اُگلی جارہی ہے بلوچ علاقوں میں کیا ہورہا ہے ۔ تمام قومیں یہی کہتی ہیں کہ ہمیں اپنے وسائل پہ اختیار دو اپنے وطن کے وسائل میں ہمیں حصہ دو۔ تمام بلوچ،پشتون صوبہ بلوچستان کی آبادی پنجاب کے ایک ضلع کے برابر ہے۔ لیکن اس صوبے میں ملنے والے ذخائر اربوں ، کھربوں ڈالر کے ہیں ۔ آج بلوچ مرد کے پاس سال میں 3جوڑے کپڑوں کا تصور نہیں ہے۔ غریب متوسط طبقے کے بلوچ جس کے پاس 3بکریاں نہیں وہ متوسط طبقے کا کہلاتا ہے ۔ بلوچوں کے گیس سے پنجاب اور سندھ کے کارخانے چلتے ہیں گلگت ،چترال پورے پنجاب میں یہ گیس موجود ہیں لیکن آج بھی بگٹی اور مری عورتوں کو روٹی پکانے کے لیے گیس مہیا نہیں۔ اور جب کوئی منع کرتا ہے اپنے حقوق کی بات کرتا ہے ہم اُسے دہشتگرد کہلا کر مارنا شروع کردیتے ہیں خدا کو مانیں ایسا نہ کریں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یو کرائن کے لوگ ہم سے بہت نازک ہیں ہر لحاظ سے آج دنیا نے یوکرائن کو سپورٹ دی ہے اور روس حیران پریشان ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ایران یہ کررہا ہے ، ہندوستان وہ کررہا ہے آپ کیوں دوسروں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو اتنا تنگ کریں کہ وہ دوسروں کی مدد لینے کے لیے مجبور ہوں؟ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر بلوچ کو اینٹی ٹینک ، میزائل وغیر ہ دنیا دے دیں تو پھر آپ کہا ںرہ جائینگے ، آپ وزیر ستان میں لگے ہیں قتل عام کررہے ہیں ، مسعود علاقے میں پچھلی مرتبہ تین چار آدمی تھے جو آپ نے کہا کہ کہ ان کا القاعدہ سے تعلق ہے آپ نے تمام مسعود قبیلے کو اپنے گھروں سے نکالا تمام سوات کو گھروں سے نکالا۔ کہ نکلو ہم نے تمہارے گائوں میں دہشتگرد ڈھونڈے ہیں۔ دہشتگرد تو اُن علاقوں کے لوگوں نے آپ کے حوالے کرنے تھے۔ اور یہی قبائلی لوگ پشتون سالانہ آپ کو پیرا ملٹری فورسز کے لیے ایک لاکھ آدمی دیتے ہیں آپ ایک سانس میں انہیں دہشتگرد کرتے ہیں دوسرے سانس میں اسلام آباد میں جتنے بھی سیکورٹی والے کھڑے ہیں وہ پشتون ہیں اُن کے پاس کلاشنکوف ہیں اور قومی اسمبلی وغیرہ تمام تنصیبات کی حفاظت کررہے ہیں ۔ تمام سفارتخانوں کے سامنے یہی لوگ ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمارے ملک کے گرین بُک میں جن لوگوں کا تیسرا درجہ ہے جو تیسرے درجے میں آتے ہیں ہمارے سیاست دانوں کی لائن لگی رہتی ہے ان کے پاس آنے جانے میں جس طرح بچوں کو بُلاتے ہیں۔ پشاور میں جومیٹنگ ہوئی یہ بات آئین کی رو کے خلاف ہے آپ کاسرکاری نوکر جس نے حلف اُٹھایا ہے کہ ہم نے سیاست میں حصہ نہیں لینا وہ آپ کو بُلاتا ہے اور آپ ایک دوسرے کے کندھے مارتے ہیں کہ فرنٹ کی سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ اس نے پاکستان کو یہاں تک پہنچایا ہے نہیں بچا سکو گے اب خدا کے لیے اس ملک پہ مزید رحم کیا جائے۔اپنی فوج کو دوہری ذمہ داریوں سے ہمیں نکالنا پڑیگا۔ پاکستان تب زندہ آباد ہوگا جب پشتون، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی ،غریب پنجابی زندہ اباد ہوگا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمارا خطہ بڑے خطرناک حالت میں ہے ،افغانستان ،ایران ، پاکستان بڑے ذخائر کے ممالک ہیں یہاں دنیا کے مست سانڈ اپنی جنگیں لڑنا چاہتی ہیں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اُنہیں یہاں لڑنے کا موقع دینگے یا نہیں ۔ جتنی غربت ہندوستان میں ہے ہم تصور نہیں کرسکتے وہاں کے عوام سڑکوں پہ رہتی ہیں لیکن اُنہوں نے سب کو سنبھال کرکے تحفظ دی ہے اور چل پڑے ہیں۔ یہاں 3کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ، یہاں 9مئی ،26نومبر کو 8فروری 2024جو کچھ ہوا کے خلاف لوگ پرامن احتجاج کے لیے نکلے اُنہیں سر میں گولیاں ماری گئیں۔ یہاں یک سینٹ کی ووٹ پہ 70ستر کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں اور ایک تھیلی آٹا چوری کرنے والے جیل میں بٹھائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ سچی گواہی نہ چھپائو ، سچ بولو ، پاکستان اور وزیر اعظم کہتا ہے جھوٹ بولو ، حکومتیں بنائو اور نمائندگی کرو ۔ پھر تو ہم پشتون ، بلوچ ، سندھی مجبور ہونگے کہ ایک نئے آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کردیں کیونکہ یہ آئین تو نہ اپنے آپ کو بچا سکتا ہے نہ ہمیں بچاسکتا ہے نہ دنیا کو نہ پاکستان کو بچاسکتا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عمران خان اچھا ہے یا بُرا ہے وہ 8فروری کے انتخابات جیت چکا ہے ۔ مذاکرات تو ایسے حالات میں نہیں ہونگے آپ نے ڈاکہ ڈالا ہے اسے واپس کرو۔ یہ آئین تو ان لوگوں کے خلاف بغاوت کا حکم دیتا ہے کہ نہیں چھوڑو ان کو جو لوگ اس آئین کا دفاع نہیں کرتے۔ جتنے بھی ہمارے وزیر اعظم ہیں ان کو وزیر اعظم بنایا گیا پھر سب کو زیارتوں میں گھسیٹا گیا ہے ہمیں خدائے بزرگ وبرتر کو کسی نے بھی یہ ہمت نہیں دی کہ کسی جرنیل کو آئین کی پائمالی پر عدالت لائیں۔ لیکن جتنے بھی وزیر اعظم گزرے ہیں انہیں پھر جیلوں اور عدالتوں میں لایا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *