وفاقی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے اور دہشت گردی شروع ہوگئی، علی امین گنڈاپور

پشاور( قدرت روزنامہ ) وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ پولیس کیلئے اسلحہ اور بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کیلئے کام کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ کو افغانستان سے مذاکرات کیلئےٹی او آرز بھیجے ہیں۔
افغان سفیر سے ملاقات ہوئی انھوں مثبت ریسپانس دیا۔ افغان مہاجرین کو ہم نے سینے سے لگایاواپسی پر ان کی تذلیل کی گئی۔ مہاجرین کو واپس بھیجنے کے عمل میں انسانی حقوق کی پامالی کی گئی،۔
جب تک مہاجرین کا پورا بندوبست نہ ہو واپس نہیں بھیجنا چاہیے۔
اس وقت ساری توجہ پی ٹی آئی کو ختم کرنے پر ہے۔ لوگوں کے پاس وسائل نہیں کہ اچھی زندگی گزار سکیں۔ جب ریاست نے ایک پارٹی کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی تو ان کے اپنے کام رہ گئے اور دہشت گردی شروع ہوگئی۔
حکومت سنبھالنے کے بعد 50 ارب روپے کا قرضہ اتارا گیا، 30 ارب انڈومنٹ فنڈ میں رکھے گئے ہیں، جسے 50 ارب تک لے جایا جائے گا۔ وہ پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹیکس لگا کر ریونیو نہیں بڑھایا، یہ پیسہ وہیں تھا، پہلے کہاں گیا۔انہوں نے کہا کہ رمضان پیکج میں 20 ارب روپے تقسیم کیے جا رہے ہیں، وظائف کو دگنا کر دیا گیا ہے، جہیز فنڈ 25 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ دسمبر تک تمام اداروں کو خود مختار بنا دیا جائے گا۔ صوبے میں کان کنی کا بڑا ذخیرہ ہے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے چیلنج دے دیا کہ کوئی کارکردگی پر بحث کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔ جاری ہائیڈرل پراجیکٹ پر کام 2014 میں شروع ہوا۔ میں کابینہ کے ارکان اور بیوروکریسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کا دوسرا بڑا مسئلہ امن و سلامتی اور دہشت گردی ہے، یہ صورتحال کیوں خراب ہوئی، بانی کے دور میں یہ صورتحال بہتر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ عہدہ سنبھالتے ہی امن و امان کی صورتحال پر توجہ دی، کے پی اور بلوچستان کی صورتحال سندھ اور پنجاب سے بالکل مختلف ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جب ریاست نے ایک جماعت کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی تو ان کے اپنے کام رہ گئے اور دہشت گردی شروع ہو گئی۔انہوں نے کہا کہ ہماری سرحد پر سپر پاورز کو شکست ہوئی ہے، وفاقی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *