پاکستان

کسی کووزیراعظم پراعتراض ہے تو پارلیمنٹ چھوڑ دے،آرٹیکل63اےکی تشریح ، سپریم کورٹ سے بڑی خبر آگئی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی یفرنس پر سماعت مکمل کر لی ، عدالت شام پانچ بجے اپنا فیصلہ سنائے گی ۔سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پرسماعت ہوئی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس کیلئےاٹارنی جنرل سےقانونی رائےلینےکی ضرورت نہیں، آرٹیکل 186کےمطابق صدرمملکت قانونی سوال پرریفرنس بھیج سکتےہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کسی کووزیراعظم پراعتراض ہے تو پارلیمنٹ چھوڑ دے،جسٹس جمال خان نےریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت اپنے وزیر اعظم کو ہٹا کر نیا لاسکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ہارس ٹریڈنگ کےبغیرعدم اعتماد ہوسکتی ہے؟،

خیانت کی ایک خوفناک سزاہے، جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک خیانت اپنےضمیر کی بھی ہوتی ہے، کیاضمیرسےخیانت کرکےکسی کی مرضی سےووٹ ڈالاجاسکتاہے؟۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ وزیراعظم ارکان کےووٹ سےمنتخب ہوتاہے، وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، عوامی وعدے پورے نہ کرنے پر ارکان وزیراعظم کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس صورت میں ارکان استعفےدےدیں،

آرٹیکل 63 اےووٹنگ سےمتعلق ارکان کوپابندبناتاہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس صورت میں آرٹیکل 95 غیرمؤثرہوجائےگا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 اےکی پیروی سےآرٹیکل 95 کیسےغیرمؤثرہوگا؟۔دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ صدر مملکت کےریفرنس سےلاتعلقی کااظہارکررہےہیں؟۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ مجھےحکومت کی طرف سےکوئی ہدایات نہیں ملیں، بطوراٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کروں گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیاآپ کہہ رہےہیں ریفرنس قابل سماعت نہیں؟کیاآپ کہہ رہےہیں ریفرنس کوجواب کےبغیرواپس کردیاجائے؟۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سابق اٹارنی جنرل نےریفرنس کوقابل سماعت قراردیا، بطوراٹارنی جنرل آپ اپنامؤقف لے سکتےہیں۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پرفائل ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیایہ حکومت کامؤقف ہے؟،

اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ یہ بطور اٹارنی جنرل میرا موقف ہے ۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ انحراف پر رکن کیخلاف کارروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے ، آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں آئیں گی ، آرٹیکل 63 ون کے انحراف سے رکن خود بخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا ، انحراف کرنے سے رکن کو شوکاز نوٹس سے وضاحت مانگی جاتی ہے ، سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو ریفرنس بھیج سکتا ہے ۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے کسی جماعت نے کوئی اقدام اٹھایا ؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ ارکان اپنے ضمیر کے مطابق مجھے اعتماد کا ووٹ دیں ، مجھے ووٹ نہیں دیں گے تو گھر چلا جاؤں گا ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم اپنی ہدایات میں تبدیلی نہیں کر سکتے ؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم نے آئین کے تحت حلف لیا ہوتا ہے ، اپنی بات سے پھر نہیں سکتا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا انحراف کرنا بد دیانتی نہیں ہے ۔عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کر لی ، فیصلہ آج شام 5 بجے سنایا جائے گا۔

متعلقہ خبریں