موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کی روک تھام کا وقت گزر گیا

لندن(قدرت روزنامہ)برطانوی موسمیاتی سائنسدان نے متنبہ کیا ہے کہ ریکارڈ توڑ ہیٹ ویوز، جان لیوا سیلاب اور دیگر شدید نوعیت کی موسمیاتی تبدیلیاں تو موسمیاتی بحران کا محض آغاز ہیں . برطانوی موسمیاتی سائنسدان بل میگوائر نے اپنی نئی کتاب میں زور دیا کہ برسوں تک سائنسدانوں کے انتباہ کو نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کی روک تھام کا وقت گزر گیا ہے، سنگین موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنا اب ممکن نہیں .


لندن کالج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے موسمیاتی سائنسدان بل میگوائر نے کہا کہ موجودہ موسمیاتی تبدیلیاں صرف آغاز ہیں مستقبل قریب میں یہ مزید شدت اختیار کرلیں گی . کاربن کے مسلسل اخراج نے زمین کو خطرناک حد تک گرم کر دیا ہے .

سائنسدانوں کی جانب سے مسلسل دیئے جانے والے انتباہ کو نظر انداز کرنے کا ہرجانہ طوفانوں، سیلابوں، خشک سالی اور گرمی کی لہروں کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا . اس کا مشاہدہ جولائی کے دوران برطانیہ میں ریکارڈ درجہ حرارت اور مشرقی لندن میں آتشزدگی سے 16 گھر تباہ ہونے کی صورت میں دنیا بھر نے کیا .
اس سے تیزی سے بدلتے موسم کا پتا چلتا ہے . موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج مستقبل میں مزید ابتر ہوتے جائیں گے . سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اب ہمارے پاس اس سے بچاؤ کا کوئی امکان نہیں ہے .
بل میگوائر کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ کتاب 2021 کے آخر میں مکمل کرلی تھی، جس میں کئی ریکارڈ جو 2021 تک ٹوٹ چکے ہیں، کا تذکرہ کیا گیا تھا . یہ محسوس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ اشاعت سے قبل ہی کتاب میں درج ریکارڈز ٹوٹ جائیں گے، اور ایسا ہی ہوا .

ان کا کہنا تھا کہ 2022 میں دنیا پہلے سے کافی زیادہ تبدیل ہوچکی ہے اور بہت جلد یہ ہم سب کے لیے ناقابل شناخت ہوجائے گی، 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت رہنے کا امکان ہے . آنے والی نسلوں کو مہلک ہیٹ ویوز کا سامنا کرنے پڑے گا .
ان کا ماننا ہے کہ سنگین موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنا اب ممکن نہیں، حالانکہ بیشتر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لاکر بیشتر تباہ کن اثرات کی روک تھام ہوسکتی ہے .

بل میگوائر نے کہا کہ بیشتر موسمیاتی سائنسدان مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں اور عوام کے سامنے اس پر بات نہیں کرنا چاہتے . انہوں نے مزید کہا کہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ’ہاٹ ہاؤس ورلڈ‘ حکمت عملی کو اپنانے کی ضرورت ہے اور ایسے حالات کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے جو معاملے کو مزید تباہ کن بناسکتے ہیں .

. .

متعلقہ خبریں