کیا سی پیک پاکستان کے لیے قرض کا جال ہے؟


کراچی(قدرت روزنامہ) چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) صدر شی جن پنگ کے 1.4ٹریلین ڈالر کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت اربوں ڈالر کے فلیگ شپ منصوبے کو شروع ہوئے 10سال ہو چکے ہیں . کیا سی پیک پاکستان کے لیے قرض کا جال ہے؟یہ بہت بڑا پروگرام ہے، مارشل پلان سے بھی11 گنا بڑا جس نے یورپ کو دوسری جنگ عظیم کے کھنڈرات سے دوبارہ تعمیر کیا، اس کا مقصد نئی سڑکوں، تیز رفتار ریل، پاور پلانٹس، پائپ لائنوں، بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے ذریعے سلک روڈ کو بحال کرنا ہے .


سی پیک ایشیا، یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے60 ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ٹیلی کمیونیکیشن روابط کا بھی اہم ذریعہ ہے . یہ ایک بار مکمل ہونے کے بعد دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کا احاطہ کر سکتا ہے اور21 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی جی ڈی پی پیدا کر سکتا ہے .
امریکی تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے یہ ممکنہ طور پر عالمی جغرافیائی سیاست کے ساتھ ساتھ جیو اکنامکس کو بھی متاثر کر سکتا ہے اور امریکہ کو چیلنج کر سکتا ہے . ان خدشات نے مغربی میڈیا میں بحث چھیڑ دی ہے جس میں تجزیہ کاروں نے بی آر آئی یعنی سی پیک کو ایک قرض کے جال کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جو ان کے بقول شکاری قرضے کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو غیر پائیدار قرضوں میں پھنساتا ہے .
پاکستانی حکام کی جانب سے اس منصوبے کو گیم چینجرکے طور پر بیان کیا گیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ توانائی کے ایک پرانے بحران کو ختم کرے گا، پرانے ڈھانچے کی بحالی، صنعتی پارکس قائم کرے گا اورگوادر پورٹ کے ذریعے چین کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ کے امکانات کو کھول دے گا .

. .

متعلقہ خبریں