بلوچستان میں بڑھتے ہوئے پانی کے بحران سے نمٹننے کے لئے حکومت سمیت دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے آبی قلت سے نمٹنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔

      

تحریر:مریم تنویر

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے پانی کے بحران سے نمٹننے کے لئے حکومت سمیت دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے آبی قلت سے نمٹنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے .

ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں زیرزمین پانی کی سطح مزید گرنے کی صورت میں یہاں کے مکین آئندہ دس سالوں کے دوران دوسرے صوبوں کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہو جائیں گے .

صوبے میں جاری آبی بحران کے تدارک اور اس میں خواتین کے کردار سے متعلق کوئٹہ میں یورپی یونین کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والے پانی کے بحران کی روک تھام کے لئے سیمینار کا انعقاد کیا گیا .

سمینار میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے سرکاری و غیر سرکاری افسران نے شرکت کی جس میں صوبے میں موجود پانی کے بحران اور آبی مسائل پر سیر حاصل گفتگو سمیت صوبے میں موجود زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبوں کو متبادل پانی کے ذرائع کی جانب سے منتقل کرنے سے متعلق مختلف موضوع زیر بحث آئے .

ایک ریسرچ کے مطابق صوبائی دار الحکومت کوئٹہ پانی کے قلت سے متعلق تشویشناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پانی کی سطح ہر سال 3.5 فٹ تک گر گئی ہے اور شہر میں زیر زمین پانی کی ایوریج سطح 180 فٹ ہے .

ورلڈ وائڈ وارٹر سپلائی کی جانب سے پیشنگوئی کی گئی ہے کہ جس طرح سے دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، یہ خطرہ ہے کہ 2025 تک 1.1 بلین افراد کو سال میں کم از کم ایک بار پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا .

جبکہ نوشکی، چاغی، خاران اور مکران سمیت دیگر علاقوں میں خشک سالی کا زیادہ خطرہ ہے جس سے آبی وسائل، جنگلی حیات، پیڑ پودے اور زمین مزید متاثر ہوگی اور ہو رہی ہے .

سیمینار میں موجود شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پانی کے بحران کی ایک بڑی وجہ تیزی سے بڑھتے ٹیوب ویل ہیں . جبکہ ان ٹیوب ویلز کے ذریعے زمین کی سطح سے پانی نکالنا زمین کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس سے بلوچستان میں زمین اپنی سطح سے مسلسل کھسک رہی ہے . اگرچہ حکومت نے شہر میں ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم اس کے باوجود بھی کوئٹہ شہر میں ٹیوب ویلوں کی تعداد 2200 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے صرف 450 رجسٹرڈ ہیں .

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شرکاء کا کہنا تھا کہ پانی کے بے دریغ استعمال اور ضیاع کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے جبکہ اس کی روک تھام میں خواتین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے

کیونکہ خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں پانی کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں جبکہ آبی قلت سے متعلق آگاہی میں خواتین کو بطور صف اول اپنا کردار ادا کرنا ہو گا

اور دوسری طرف بلوچستان میں آدھے سے زیادہ آبادی کا ذریعہ معاش یہاں کی ذراعت ہے یعنی کہ مویشی پالنا یا کھیتی باڑی کرنا ہے اور دور دراز علاقوں میں بھی جو لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں وہ پانی کا استعمال کرتے ہیں شرکاء کا کہنا تھا کہ انہیں اگر ایسی فصلوں پودوں کے بارے میں آگاہی دی جائے جن کی کشتکاری میں کم پانی استعمال ہوتا ہے جیسے کے ذیتون، انار، انگور، بادام اور پستہ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ لو ڈیلٹا فصلیں ہیں اور اگر کاشتکاروں کو ذیتون کے بارے میں بتایا جائے تو بہت ہی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے . جس سے پانی کی بچت ہوگی اور ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا، کیونکہ زیتون ایک مفید اور مہنگی غذا ہے

زیتون کی کشتکاری سے نہ صرف زیتون حاصل ہوگا، بلکہ زیتون کا تل اور مربعے وغیرہ بنائے جاسکتے ہیں جو کہ نہ صرف انسانی صحت کے لئے بہترین ہیں، بلکہ اس کی فصل کی کاشتکاری سے معیشت میں بھی خاصہ اضافہ ہو سکتا ہے .

Revival of Balochistan Water Resources کے چیئر پرسن (Mr. Jelle Beekma)

 

کا کہنا تھا کہ ان کے اس پروجیکٹ کا مقصد بلوچستان میں پانی کے وسائل بہترین طریقے سے استعمال کرنا ہے جس سے پانی کا استعمال کم اور فائدہ زیادہ حاصل ہو, تا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے پانی کو محفوظ کر سکیں

ڈاکٹر محمد اختر بھٹی، نیچرل رسورسز مینجمنٹ ایکسپرٹ اینڈ ڈیپٹی ٹیم لیڈر RWBR

کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کا مقصد لو وارٹر اکانومی کو فروغ دینا ہے . اس سے لو وارٹر اگریکلچر کے ذریعے پانی کی پروڈکٹیوٹی بڑھائی جا سکتی ہے اور کم پانی استعمال کیا جا سکتا ہے . انہوں نے بتایا کہ بلوچستان گورنمنٹ کے تعاون سے چند ریور بیسن سیلیکٹ کیے گئے ہیں جن میں پشین، ماشکیل اور ہنگول شامل ہیں، اور انہیں مزید سب بیسن میں تبدیل کیا جائے گا اور وہاں کے یونین کونسل کی مدد لے کر وہاں کی کمیونٹیز کو لو ڈیلٹا اگریکلچر کے مطابق آگاہی دی جائے گی تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں . چونکہ پانی کا 90% فیصد استعمال ذراعت میں ہوتا ہے، جس کے وجہ سے وہاں کے لوگوں کو پینے کے پانی کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر انہیں low delta agriculture کے متعلق معلومات ہوگی تو یہ ان کے لیے کافی مفید ہوگا

زیب النساء جنڈر ایکسپرٹ کا کہنا تھا کہ ڈیویلپمنٹ سیکٹر میں کام کرنے میں خواتین بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں اور کرتی آئیں ہیں اس پروجیکٹ میں ان کی شمولیت ہمارے لئے قابل فخر ہے اگریکلچر سے خواتین کا آنا اور ہمارے ساتھ مل کر رولر ایریاز میں کام کرنا دیہی علاقوں کی خواتین کو پانی سے متعلق آگاہی دینا انہیں Rain water harvesting اور کچن گارڈننگ کے متعلق سکھانا اور کچن گارڈننگ کے استعمال کی اشیاء فراہم کرنا نہ صرف ان کے لیے ذاتی طور پر کارآمد ثابت ہوگا بلکہ ساتھ ہی ساتھ صوبے کی اور پاکستان کی معیشت میں بھی بہتری آئے گی اور کم پانی کے استعمال سے لگائی جانے والی سبزیوں سے پانی کا زیادہ اخراج بھی نہیں ہو گا

روبینا شاہ، ریویر سب بیسن موبیلائزر *RWBR ،


کا کہنا تھا کہ آنے والی نسلوں کے لئے پانی کو محفوظ کرنا کسی ایک شخص یا ایک ادارے کا کام نہیں ہے، اس کے لئے ایگریکلچر کلچر، سوشل سروسز، ایریگیشن، رینج، لینڈ اور لائف سٹوک مینجمنٹ جیسے تمام اداروں کا متحد ہو کر اربن اور رولر ایریاز میں کام کرنا ضروری ہے .

. .

متعلقہ خبریں