پاکستان اتنا مقروض ہوگیا ہے کہ ہماری نسلیں بھی اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتیں، محمود خان اچکزئی

کان مہترزئی (قدرت روزنامہ) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خا ن اچکزئی نے کہا ہے کہ اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تویہ ملک مزید بحرانوں سے دوچار ہوگا، یہ ملک ہماری بداعمالیوں کے نتیجے میں کھنڈرارت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے جس میں سیاستدان، ججز، جرنیل،صحافی سب شامل ہیں،ہم اس ملک کو 70سال سے ایسے چلاتے رہے ہیں جیسے دیمک اپنا خوراک کررہا ہوں . سب کو توبہ کرنی ہوگی آئیں ایک جمہوری پاکستان کی تشکیل کریں، شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنائیں عوام جسے ووٹ دینا چاہے انہی نمائندوں کے ذریعے خودمختار پارلیمنٹ بنانے دیا جائے، آج یہ ملک اتنا مقروض ہوچکا ہے کہ ہمارے پوتے بھی اس قرض سے نجات حاصل نہیں کرسکتے .

یہ ہمارا ملک ہے ہم اس میں رہتے ہیں اور اس کے بچانے کی واحد راہ یہ ہے کہ یہ ایک جمہوری ملک ہو، یہاں شفاف انتخابات ہوں انصاف ہو، پارلیمنٹ خودمختیارہو، آئین کی بالادستی ہو، جمہور کی حکمرانی ہو . افغانستان کو اللہ پاک بُرے نظروں سے بچائیں وہ وقت دور نہیں جب افغانستان ہم سب کیلئے ایک ا¿رام گاہ اور سایہ ہوگا اورہمارے بچوں کو وہاں عزت کی روزگار کے مواقع ملیں گے . انتخابات میں مداخلت سے گریز کیاجائے یہ بُری بات ہے کہ آپ اپنے بندے کو لانے کیلئے عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں، جیت ہماری ہوگی اور آپ کسی اور کو لائینگے تو اس کے ذمہ دار پھر آپ ہونگے، ہمارے پولنگ ایجنٹوں اور کارکنوں کو ہمت کرنی ہوگی، یہاں کسی کی بدمعاشی نہیں چلنے دینگے کہ جیت ہماری ہوگی اور اعلان کسی اور کا ہوگااس سے اس وطن میں بڑی بربادی آسکتی ہے . پشتونخوامیپ ملک کے دیگر جماعتوں سے کچھ خصوصیات الگ رکھتی ہیں یہ واحد پارٹی ہے کہ اس نے ملک کے کسی بھی مارشل لاءکا ساتھ نہیں دیابلکہ اس کی یہ شہرت ہے کہ اس ملک میں پشتونخوامیپ نے جس کو بھی ہاتھ دیا زبان دی وعدہ کیا تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹی، میں کارکنوں کو کہتا ہوں کہ وہ کاروبار، سیاست، زندگی میں کسی کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے یہ دعا کریں کہ دوستی کا یہ ہاتھ ان کی طرف سے نہ چھوٹے . پشتونخوامیپ نے اس ملک میں آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ کی خودمختاری، قوموں کی برابری کے فیڈریشن کی بات کی ہے . انتخابات کے دوران نواب محمد ایاز خان جوگیزئی اس حلقے سے قومی اسمبلی کی نشست پر ہمارے پارٹی کے امیدوار ہیں پہلے تو ان کے مدمقابل احتراماً کسی کو انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا چاہے وہ جو بھی ہو . مولانا واسع صاحب سے ہم کہہ چُکے ہیں کہ وہ تین صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر آپ کی پارٹی کی حمایت کریگی اور آپ قومی اسمبلی کی نشست پر نواب صاحب کی حمایت کرے لیکن نہ جانے وہ کیا کرنا چاہتے ہیں . آزمائش کی ایک گڑی ہے ہمارے کارکنوں کو ہمت کرنی ہوگی . ووٹ کیلئے عوام کو گھروں سے نکالناہوگا . انتخابات کا دن حقوق کے حصول کی جنگ کا دن ہے اگر 10بیوہ ایک طرف ہو اور ووٹ کاسٹ کریں اور 9 زورآور لوگ دوسری طرف تو یہ 10بیوائیں انتخابات میں کامیابی حاصل کرینگی . انتخابات کے دن تمام عوام اپنے گھروں سے نکل کرووٹ کا استعمال ضرور کرے . آج اس اجتماع میں شمولیت کرنیوالوں کو پارٹی میں خوش آمدید کہتاہوں یہ آپ کی پارٹی ہے اور ہمیں ملکر اپنی قوم کو متحدومنظم کرنے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی . اس ملک میں جو حق دوسرے اقوام کا ہے وہی حق پشتونوں کا بھی ہے، ہم اپنے عوام کیلئے ملک کے ہر ادارے، ہر شعبہ میں حصہ چاہتے ہیں،عدلیہ، فوج، پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں میں پشتونوں کا حق ہے . ان خیالات کا اظہار پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین NA-266چمن، قلعہ عبداللہ اور NA-263کوئٹہIIسے پارٹی کے امیدوار محمودخان اچکزئی نے کان مہترزئی میں شمولیت کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا . اس موقع پر حاجی داد خان کاکڑ، علا¶الدین کاکڑ، ڈاکٹر حبیب الرحمن، ملک حیات اللہ پشہ موریزئی،محمد علی اُستاد کی قیادت میں سینکڑوں افراد نے پشتونخواملی عوامی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا . اجتماع سے پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری پی بی3سے نامزد امیدوارحاجی دارا خان جوگیزئی، حاجی محمد حسن کاکڑ، حاجی داد خان کاکڑ، سردار ادریس خان، نعمت خان کاکڑ، کمال خان کاکڑ، نقیب پامیر اور عزیز احمد عزیز نے بھی خطاب کیا . محمود خان اچکزئی کا کان مہترزئی پہنچنے پر پرتپاک استقبال کیا گیا اور پھول کے پتے نچاورکیئے گئے اور انہیں گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کے جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ تک پہنچایا گیا . محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمارے عوام پشتونخوامیپ اور اس کے پروگرام سے بخوبی آگاہ ہیں، جب سیاست کے نام سے لوگ ڈرتے تھے اور انگریز کیخلاف بات کرنے سے ڈرتے تھے اس کان مہترزئی میں ایسے بہادر علماءتھے جو اُس وقت انجمن وطن کے پلیٹ فارم سے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے ساتھی تھے . اور پھر ملک کے قیام کے بعد ورور پشتون جماعت میں اس وطن کے تمام علماءمولوی عبدالخاق تارن ودیگر علماءپشتونخواملی عوامی پارٹی، خان شہید کے ساتھ تھے . اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ پشتون قوم جس سرزمین پر آباد ہیں یہ سیال اور اختیار کے مالک ہوں . اس دوران کچھ ایسے حالات بنے کہ ہماری سرزمین میدان جنگ بنی اور اس کے بعد ہماری طویل کوششوں سے ہم اور علماءکرام ایک بار پھر اپنے وطن اور عوام کیلئے ایک ساتھ ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کی بڑی مہربانی ہے . اسلام دنیا کیلئے ایک مذہب ہے یعنی دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ اور دیگر اقوا م اسلام کو ایک مذہب کی نظر سے دیکھتے اور پہچانتے ہیں جبکہ پشتونوں کیلئے یہ اسلام ان کا لباس ہے یہ ان کی زندگی کا حصہ ہے اوراسلام پر ہماری کسی کے ساتھ کوئی بندش نہیں . سائیں کمال خان شیرانی کہتے تھے کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پشتون ایک قوم ہے اور اپنی سرزمین پر آباد ہیں اور اس کے اپنے مشکلات ہیں ہمیں اس پر بحث کرنا ہوگا . پشتونخواملی عوامی پارٹی ہماری پارٹی ہے ہمارے کارکن نے اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ وہ پشتون قوم کے سفیر ہیں ہماری پہچان ضلعوں یا علاقوں کے ناموں سے نہیں بلکہ دنیا ہماری خاصیت دیکھتی ہے کہ یہ پشتون ہے اس کا انسانوں کے ساتھ، مذہب کے ساتھ،کسی دوسرے زبان والوں کے ساتھ رویہ کیساہے . آج دنیا ایک گا¶ں میں تبدیل ہوچکی ہے انسان اس وقت انسانیت کویکجا کرنے پر لگی ہوئی ہے ایسے ظالم بھی ہونگے جو اس میں رکاوٹ بنے . لیکن انسان اس وقت انسانیت کو متحد کرنے میں مصروف ہے . اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت آدم علیہ اسلام اور بی بی حوا انا سے انسانوں کو پیدا کیا اور پھر انہیں قبیلے اور قوموں میں تقسیم کیا تاکہ ان کی ایک دوسرے کے ساتھ تعارف ہوسکے اور ایک دوسرے کو پہچان سکے . ہم بنیادی طور پر آدم علیہ اسلام اور بی بی حوا انا کے بچے ہیں اوراس رشتے سے دنیا کے تمام انسانوں کے والدین ایک ہے . اگر چہ ہم انسان ہے تو ہمارا رویہ لوگوں کے ساتھ انسانی ہونا چاہیے . مذہب اس وقت چار ہزار سے زائد ہے اور اس کے ماننے والے اپنے لوگ ہیں، ہزاروں زبان ہیں اقوام کی . اس دنیا میں الگ الگ انسان ہیں ان کے اپنے رنگ، نسل، زبان، مذہب ہیں . دین میں کوئی زور نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اُن تمام جگہوں کا احترام کریں جہاں میرا نام لیا جاتا ہو . ہم ہر مذہب، فرقے کے لوگوں کو کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کرنا ہوگا، آپ میرے اسلام، دین، مٹی کے مسجد کا احترام کرے میں آپ کے مندر،، گردوارہ،گرجاگر کا احترام کرونگا . پشتون قوم کی حیثیت ایک بہادر اور شجاع قوم ہے، موجودہ حالات میں ہماری قوم تکالیف سے دوچار ہیں ہوسکتا ہے کہیں غلطی ہوئی اور ہم آزمائش میں ڈالے گئے لیکن پشتون قوم نے بادشاہتیں بنائی اور گرائی ہیں . اور دنیا جہاں اس بات پر متفق ہے کہ پشتونوں کا وطن زور آور قوتوں کا قبرستان ہے . اس سرزمین پر قبضے کی نیت سے جو آئے ہیں اور اس کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں . پشتون سرزمین پر قدرت نے بیش بہا نعمتیں پیدا کی ہے اور دنیا کے زور آور قوتوں کی نظریں ہمارے ان نعمتوں،وسائل اور معدنیات پر ہیں . لیکن افسوس کہ آج اس قوم کے بچے مسافرانہ زندگی، محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں اور قوم کی حیثیت ایک مزدور قوم کی بنادی گئی . آج ہمیں اپنے ہی سرزمین کے پانی،خزانے، معدنیات وسائل پر واک اختیارسے محروم رکھا گیا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو وہ ترقی، سائنس، علم وٹیکنالوجی کی باتیں کرتے ہیں لیکن یہاں اگر وزیرستان، ہندوباغ، پشین،چارسدہ میں ہمارے بچے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں ہمیں اچھی مزدوری کہاں ملیں گی . یعنی ہمارے قوم کے مستقبل کے معمار مزدوری کی تلاش میں در پدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، آج سب سے سستا مزدور پشتون کی شکل میں دنیا کو مل رہا ہے،مسافر پرندوں کی مانند ہمارے نوجوان اپنے گھر بار چھوڑ کر اس ملک اور بیرون ملک مسافرانہ زندگی گزار کر محنت مزدوری کررہے ہیں اور پھر کچھ کما کر یہاں آتے ہیں اور فوراً واپس چلے جاتے ہیں سالہا سال اپنے ماں،باپ اپنے گھروالوں سے دور رہتے ہیں . اس تمام اذیت ناک صورتحال میں ہمارے نوجوان اپنے گھروالوں کی کفالت کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس قوم پر دنیا جہاں کے غلط القابات مسلط کیئے جارہے ہیں، پروپیگنڈوں کے ذریعے اس قوم کی بدنامی کی جارہی ہے . آج دنیا جہاں میں ہنر کے ذریعے ترقی کررہے ہیں ہمیں اپنے بچوں، بچیوں کو تعلیم دینا ہوگا اوروہ ہنر سیکھانا ہوگا کہ وہ بھی ایک ڈاکٹر، انجینئر، استاد، آرکیٹیکچر بن سکے اور اپنے قوم کی ترقی وخوشحالی میں اپنا کردار ادا کرسکے اور اس کیلئے ہمیں محنت کرنی ہوگی . پشتون آج بھی تمام آس پاس کے قوموں کے مقابلے میں اعلیٰ اقدار کے مالک ہیں ہمارے وطن کی ایک ایک انچ زمین تقسیم ہے، پشتون مہمان نواز ہیں اور اس وطن میں ایک دسترخوان پر تمام طبقات کے لوگ اکھٹے بیٹھ سکتے ہیں یہ خاصیت قریبی دیگر اقوام میں نہیں . پشتونخوا وطن میں لاجنگ اور بورڈنگ مفت، کھانا اور بسترہ بالکل دنیا جہاں کے کسی بھی شخص کیلئے مفت میسر ہے . محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتونوں کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کیلئے شاید اللہ تعالیٰ نے یہ جدوجہد پشتونخوامیپ کے حصے میں ڈالی ہے کہ اپنے قوم کو اس حالت سے نکالنے میں مدد کریں اسی طرح ہمارے اکابرین نے آمو سے لیکر اباسین تک اپنے سرزمین کو ایسا تقسیم کیا ہے کہ یہاں کے پہاڑ، پانی، سرزمین سب مالک رکھتے ہیں اور اس حوالے سے ہماری خواتین بھی آگاہ ہیں کہ فلاں جگہ سے فلاں قبیلہ اور پھر وہاں سے فلاں قبیلہ آباد ہے یہ اس کی ملکیت ہے . ہم پشتون دنیا میں ایک قوم ہیں اور اپنی ایک زبان، تاریخ، جغرافیہ اور اپنا الگ ثقافت رکھتے ہیں ہمیں پشتون قوم کیلئے بھی یہی حقوق چاہیے جو دنیا کے دوسری اقوام کو حاصل ہیں . دنیا کے مورخ لکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ اسلام پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو یہاں آمو دریا سے لیکراباسین تک پشتون آباد رہے ہیں . اللہ تعالیٰ نے سورة رحمن میں جو نعمتیں بیا ن کی ہیں ان تمام نعمتوں سے پشتون قوم کو نوازا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان تمام نعمتوں کے باوجود ہماری قوم اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں کچھ لوگوں نے ہمارے ذہنوں میں یہ ڈالا ہے کہ یہ آپ کی قسمت ہے حالانکہ یہ ہماری قسمت نہیں قسمت تو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی حصے کے ہیں اگر ہمیں یہ حصہ ملا ہے قدرت نے دیا ہے تو ہماری قسمت ہر ایک سے زور آور ہے . لیکن ہماری ان نعمتوں، وسائل پر قبضہ کیا گیا ہے ہم کسی سے خیرات یا زکوة نہیں مانگتے ہم اپنی سرزمین پر آباد ہیں اور اپنے وسائل پر اپنا واک واختیار چاہتے ہیں اور پشتونخواملی عوامی پارٹی اپنے قوم کو سیال،برابر بنانے، انہیں اپنا قومی صوبہ دینے، اپنے وسائل پر واک واختیار دلانے کیلئے جدوجہد کررہی ہے . پارٹیاں اس لیئے لوگ نہیں بناتے کہ وہ سڑک بنائے، سڑکیں، ریلوے لائن، بہتر پولیس نظام تو انگریز نے بھی ہمیں دیئے تھے لیکن پھر بھی اس قوم نے فرنگی کو یہاں سے جانے پر مجبور کیا وہ اس لیئے کہ ہمارے اکابرین کا یہ مطالبہ تھا کہ ہم اپنی سرزمین پر آباد ہیں، ہمارے وسائل پر واک واختیار ہمارا ہوگا . پشتونخواملی عوامی پارٹی ہی ہماری سب کچھ ہے ہماراسکول، کالجز، یونیورسٹی ججز، ڈاکٹرز، جرنیل ہمارے ننگ اور جنگ کے لوگ ہیں . آج جو لوگ پارٹی میں شامل ہورہے ہیں یہ خوش آئند ہے کہ وہ کئی نہیں گئے اور اپنی قومی پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں، ہمیں پشتونخوامیپ کو ایسی پارٹی بنانی ہوگی کہ جیسا بچے اپنی ماں کی گود میں خوش ہوتے ہیں پشتونخوامیپ اپنے قوم کیلئے ایسے ہوگی اور اپنے قوم کو متحد ومنظم کریگی . ہمیں ملامت کو ملامت کہنا ہوگا اگر میرا بیٹا، بھائی، بھتیجا کسی پر ملامت ہوا تو میں بالکل اسے ملامت کرونگا اور نہ کیا تو میں پشتوبولنا چھوڑ دونگا لیکن ایسا نہیں ہوگا کہ میرا یا میرے قبیلے کا کوئی شخص چور، ڈاکو ہو، ظلم کرتا ہو اور میں اس کی حمایت کروں ایسا بالکل نہیں ہوگا . جو بات ہم نہیں سُن سکتے اپنے لیئے وہ بات ہمیں دوسرے کو نہیں کرنی ہوگی، جو آپ اپنے لیئے چاہتے ہیں وہی دوسروں کیلئے چاہنا ہوگا . ہمیں خیر کے لوگوں کا ساتھ دینا ہوگا اور بے خیرلوگوں سے دور رہناہوگا . آج بھی ہمارے وطن میں اگر کسی گا¶ں میں اکثریت قبیلہ آباد ہو تو وہ دوسرے اقلیت قبیلے کی راہ میں روڑے اٹکاتاہے اسے سیاست کرنے، ترقی کرنے سے روکتا ہے جو کہ نہیں کرنا چاہیے . آج ہمارے عوام جو ق درجوق پشتونخوامیپ میں شامل ہورہے ہیں اگر ہم ہمت کرے تو میرایقین ہے کہ اس قوم کے جتنے مسائل ہیں یہ عدالتوں میں نہیں بلکہ اس قوم کے لوگ خود حل کرسکے گے . ہر مسئلہ، ہر جھگڑا تین لوگوں کو اختیار دینے سے حل ہوگا اور ہم پارٹی کو ایسی تنظیم بنائینگے کہ اس قوم کے لوگوں کے تمام مسائل یہ پارٹی حل کریگی . پشتونخواملی عوامی پارٹی سے لوگوں کی نفرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ پارٹی پشتون قوم کو متحد ومنظم کرنا چاہتی ہے . یہ گناہ پارٹی کررہی ہے اور کرتی رہیگی ہم پشتونوں کے تمام قبیلوں کے یکجا کرکے اسے ایک گلدستہ میں رکھنا چاہتے ہیں . انتخابات کے دن ہیں اور انتخابی مہم ہر علاقے میں جاری ہیں میں آج یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ آپ نواب صاحب کو ووٹ دیں لیکن مجھے افسوس ہے کہ نواب صاحب کے مدمقابل کیوں لوگ کھڑے ہیں، نواب صاحب اس قوم کے بڑے ہیں، بزرگ ہیں لیکن ان کے مقابلے میں لوگ انتخابات میں کھڑے ہورہے ہیں . ہم نے جب سُنا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب ضلع پشین کی قومی اسمبلی کی نشست پر کھڑے ہورہے ہیں تو میں نے مولانا صاحب کے فرزندوں اور ان کی پارٹی کو بھی کہا کہ اگر آپ کے ہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں تو آپ کیلئے بہتر حلقہ چمن ہے آپ آئیں چمن کی نشست سے کھڑے ہوجائے میں الیکشن میں حصہ نہیں لونگا لیکن ان کی جماعت کے لوگوں نے پشین کے حلقے کا انتخاب کیا . اب ٹھیک ہے وہ پشین سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تو یہ ہمارے پشتون روایات،اقدار میں شامل ہیں کہ ایک بزرگ وہاں سے آکر یہاں انتخاب لڑرہا ہے تو ہمارا حق بنتاہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب جہاں سے انتخاب لڑینگے ہم ان کے مقابلے میں نہیں کھڑے ہونگے . ہماری کوشش ہوگی کہ ہم جمعیت کے ساتھ آگے بڑھے لیکن ہر جماعت میں کچھ لوگ ہوتے ہیں اگر وہ ساتھ نہیں چلنا چاہتے تو ہم بھی پھر کسی نہ کسی کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں . البتہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ ہم نے زبان کی ہے تو ہم اس پر قائم رہینگے . محمود خان اچکزئی نے کہاکہ ہم نے دنیا کے ساتھ خود کو بدلنا ہوگا تمام دنیا کے انسانوں کا احترام لازم کرنا ہوگا، آدم علیہ اسلام اور بی بی حوا انا کے بچے سارے آپس میں ایک ہیں اور اشرف المخلوقات ہیں کسی سے اس بنیاد پر نفرت کرنا کہ اس کا قوم، نسل،مذہب یا فرقہ کیا ہے کو ہم گناہ سمجھتے ہیں . تمام مذاہب کے عبادت گاہوں کا احترام سب پر لازم ہے . اللہ تعالیٰ نے دنیا کے انسانوں کو الگ الگ رنگ، زبانوں، قوموں اور نسلوں میں پیدا کیاہے اور ایک قوم کے بننے کیلئے ایک زبان کا ہونا لازم ہے اور ان کی ثقافت، تاریخ اور جغرافیہ کا ایک ہونا ایک قوم کو تشکیل دیتی ہے یعنی انسانوں کے اس گروہ کو ایک قوم کہا جاتا ہے جو ان پانچ چیزوں میں مشترک ہوں . تاریخ کہتی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور بھی نہیں ہوچکا تھا آمو سے لیکر اباسین دریا کے درمیان پشتون افغان آباد تھے ان کی اپنی زبان تاریخ ثقافت جغرافیہ تھا اور اس بات پر دنیا کے تمام تاریخ دان متفق ہیں کہ اس سرزمین پر پشتون آباد تھے اور یہ زمین ہمیں کسی نے خیرات یا زکوة میں نہیں دی بلکہ اپنے داد پر دادا کے سروں کی قربانیوں سے صحیح سلامت ہم تک پہنچی ہے . یہاں پر ہمارے آبا¶ اجداد نے اپنی ہڈیوں کو قربان کرکے اس کی دفاع کی ہے . محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اباسین کا مطلب یہ ہے کہ پشتو میں سیند پانی کے بہتے دریا کو کہتے ہیں اور اباسین کا مطلب ہے سیندوں کا ابا یعنی اس میں تمام چھوٹے دریا شامل ہوتے ہیں . پشتون آج بھی دریائے اباسین کے کنارے اپنی زمینوں کو آباد کرنے کیلئے بارش کیلئے دعائیں کرتے ہیں . ہمیں اپنے پانیوں پر اختیار نہیں کیونکہ پانی کی تقسیم کا غلط معائدہ کرکے ہمیں اپنی پانیوں سے محروم رکھا گیا ہے .

. .

متعلقہ خبریں