اسٹاف لیول معاہدہ، معیشت میں بہتری کی امید
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ ہوگیا۔ اعلامیے میں آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نئی حکومت نے پروگرام پر عمل درآمد جاری رکھنے کا کہا ہے، کثیر الجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے رقوم کی بحالی میں بہتری آئی ہے۔ بہتر پالیسی مینجمنٹ کے باعث معاشی گروتھ اور اعتماد بحال ہوا ہے۔
بلاشبہ یہ خبر ملکی معیشت کے حوالے سے خوش آیند ہے اور نئی حکومت پر اعتماد کا مظہر بھی، لہٰذا معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور عوامی مالیات کو ذمے داری سے منظم کرنے کے لیے موثر مالیاتی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر عملدرآمد لازمی ہے۔ ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بہتر بنانا اور ٹیکس چوری کو روکے بغیر کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
پاکستان اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ کمزور گورننس، پیچیدہ ٹیکس نظام، قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے ملکی معاشی ترقی میں رکاوٹیں آرہی ہیں۔ پاکستان کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ ملک کی افرادی قوت کا تقریباً 37 فیصد اسی شعبے سے وابستہ ہے۔
زرعی شعبہ ہی کپاس اور ایسا دیگر خام مال پیدا کرتا ہے جس سے ملک میں کپڑے کی صنعت چلتی ہے۔ تاہم چھوٹے پیمانے پر زرعی سرگرمیوں اور جدت کے فقدان کے باعث اس شعبے کی استعداد ناکافی ہے۔ اس کا بالواسطہ نتیجہ غذائی عدم تحفظ، دیہی علاقوں میں بے روزگاری اور غربت کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ کسانوں کے لیے قرضوں کی فراہمی کے عمل کو آسان بنانے سے ان کی استعداد اور پیداوار میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
مالی وسائل تک بہتر رسائی کی بدولت کاشت کاروں کے لیے بڑے پیمانے پر زرعی سرگرمیاں ممکن ہو سکیں گی اور وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف خود کو بہتر طور سے تیار کر سکیں گے۔ صنعتی ترقی کو آسان بنانے اور برآمدی مسابقت کو بڑھانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، جیسے سڑکیں، بندرگاہیں، اور توانائی کے منصوبوں پر کام کرنا پڑے گا، جب کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مند افراد کو تیار کرنا نہایت اہم ہے۔ یہ وہ ترجیحات اور چیلنجز ہیں جن سے حکومت کو نبرد آزما ہونا ہے۔
معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے سابقہ نگراں حکومت کی کار گزاریاں کسی طور فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ پچھلے مہینوں ڈالر، سونا، گندم، چینی، کھاد اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا، جس کے نتیجے میں اربوں ڈالرز برآمد کیے گئے، اربوں روپے مالیت کی ذخیرہ اور اسمگل شدہ اشیاء کی برآمدگی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ڈالر کے پر کُترنے میں مدد ملی اور پاکستانی روپے نے استحکام حاصل کرنا شروع کیا۔ ڈالر جو 330روپے کی سطح پر پہنچا ہوا تھا اب 280روپے پر آچکا ہے۔
اسی طرح پٹرول کی قیمت بھی 330روپے سے متجاوز تھی جو اب تقریباً 280 روپے فی لٹر دستیاب ہے۔ اس کے نتیجے میں آٹا، چینی اور کھاد کی قیمتوں میں بھی زیادہ نہ سہی لیکن کچھ کمی ضرور آئی۔ اسی طرح ملکی معیشت پر عرصہ دراز سے بوجھ غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کو پاکستان بدر کرنے کا بڑا فیصلہ بھی نگراں حکومت کے دور میں سامنے آیا، لاکھوں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو اُن کے وطن واپس بھیجا جا چکا ہے۔
اس فیصلے سے معیشت پر بوجھ میں خاصی کمی آئی۔ جرائم کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آئی اور آیندہ بھی ان فیصلوں کے مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔ ایس آئی ایف سی کی جانب سے اقدامات کے نتیجے میں سعودی عرب، چین، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر ممالک کے ساتھ بڑی سرمایہ کاری کے اہم معاہدات طے پا گئے۔
پاکستان کے جی ڈی پی میں نقل و حمل کے شعبے کا حصہ 10 فیصد ہے۔ تاہم اس شعبے کو نجی گاڑیوں اور کم کاربن خارج کرنے والے ایندھن کی جانب سست رفتار منتقلی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ناکافی شہری منصوبہ بندی کے باعث لوگوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ہے جس کے باعث بڑی تعداد میں لوگ نجی گاڑیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ نقل و حمل کے موثر نظام کی بنیاد پر بہتر شہری منصوبہ بندی میں پبلک ٹرانسپورٹ، سائیکل سواری اور پیدل چلنے کی حوصلہ افزائی اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری کے عمل میں بہتری درکار ہے۔
اس مقصد کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے معاملے میں کاربن ٹیکس پر عملدرآمد اور اندرون ملک کاربن مارکیٹ تخلیق کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ پٹرول کا کم استعمال تو اسی وقت ہوسکتا ہے جب عوام کے پاس پبلک ٹرانسپورٹ اتنی بہترین ہو جس کا استعمال کرکے وزرائ، امیر، غریب سب آمدورفت کی سہولت سے استفادہ کرسکیں۔
برطانیہ، امریکا، چین اور جاپان میں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ ٹرانسپورٹ کی سہولت سب کے لیے مساوی ہے مگر پاکستان میں اس کے برعکس ٹرانسپورٹ اتنی ناقص ہے کہ غریب ہو یا امیر، وہ اپنے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام خود کرنے پر مجبور ہے، جس کی وجہ سے پٹرول کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اسکوٹروں اور گاڑیوں کی تعداد میں گزشتہ کئی برس سے اضافہ ہوتے ہوئے نظر آرہا ہے اور اسی اضافے کے باعث آلودگی بھی ہر سال بڑھتی نظر آتی ہے ، پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں کمی ہوسکتی ہے اور وہ بھی صرف چند دنوں میں۔ صرف حکومت کو اچھی بسیں درآمد کرنی پڑیں گی۔
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ عوام پر ٹیکسز کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت کاروباری ادارے بنائے جس سے اسے آمدنی ہوگی اور قیمتوں پر کنٹرول بھی آسکتا ہے تاہم نئے حکومتی ادارے بنانا تو دور کی بات، جو پرانے ہیں، یا تو حکومت سنبھال نہیں پا رہی، یا پھر انھیں بیچنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ نجی شعبہ اٹھاتا ہے اور اپنی خدمات کی من مانی قیمتیں عوام سے وصول کرتا ہے۔
آج جو بھی صنعتیں اپنی اشیاء مہنگی بیچتی ہیں، ان کی قیمتیں کنٹرول اس لیے نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ان کا مافیا بہت مضبوط ہوچکا ہے، اس وجہ سے کہ اگر وہ اپنا کاروبار بند کردیں تو حکومت کے پاس کوئی اور متبادل نہیں۔
اس بحران کے خاتمے کا حل یہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں موجود قیمتی سرکاری اراضی کو عالمی تجارتی کمپنیوں کو لیز پر دے کر، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کر کے قرضے ادا کر دیے جائیں اور اس سے قبل قرضوں پر خرچ کی جانے والی رقوم لوگوں کی صحت اور تعلیم کی بہتری پر خرچ کی جائے۔ اس طرح لوگوں کو تربیت دے کر ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے اور ’’ ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹس‘‘ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
مہنگائی کی اونچی شرح نے اوسط پاکستانی کی قوت خرید کو ختم کردیا ہے، جس سے شہریوں کے لیے بنیادی ضروریات کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ ملک میں نوجوانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں نوجوانوں کی تعداد خوش آیند ہے وہیں بے روزگاری کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بجلی کی مسلسل قلت صنعتی ترقی میں رکاوٹ ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔
بدقسمتی سے حکمران طبقہ بھلے وہ فوجی حکمران ہوں یا سیاسی جماعتیں کوئی بھی توانائی بحران کو حل کرنے میں بہتر اقدامات اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امن و امان کے مسائل اور دہشت گردی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکا ہے اور معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بدعنوانی بھی ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے، جہاں امن و امان کی خراب صورتحال نے معاشی ترقی کو روکا ہے وہیں بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔
سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی عدم فراہمی سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر نے صنعتی ترقی اور برآمدی صلاحیت کو روکا ہے۔ وسیع پیمانے پر ٹیکس چوری اور ایک بڑی غیر رسمی معیشت نے حکومتی محصولات کو محدود کر دیا ہے اور مالیاتی خسارے میں حصہ ڈالا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ معیاری تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت تک رسائی سے محروم ہے جس کے نتیجے میں ہنر مند افراد کی کمی ہے۔
پاکستان کے بیرونی اور ملکی قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ شرح مبادلہ میں متواتر اتار چڑھاؤ نے کاروبار اور سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ ملک ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار رہتا ہے جس کی وجہ سے بیرونی قرضوں اور مالی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز کثیر جہتی ہیں لیکن اسٹرٹیجک اصلاحات اور اقدامات سے بہتری کے امکانات موجود ہیں۔ سیاسی استحکام، مالیاتی نظم و ضبط، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور سرمایہ کاری کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنے کے کلیدی شعبے ہیں۔
مزید بدعنوانی، تعلیم، اور سماجی تحفظ جیسے مسائل کو حل کرنا جامع اور لچکدار معیشت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوگا۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت، کاروباری اداروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے پائیدار اصلاحات اور ترقی کے عزم کے ساتھ مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہو گی۔