فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل:جناح صاحب نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے اسے آگ لگائی گئی، جسٹس جمال خان مندو خیل


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملے پر دائر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شاہد بلال بینچ میں شامل ہیں۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ جناح صاحب نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے اسے آگ لگائی گئی۔ کیس کی سماعت 11 جولائی تک ملتوی کردی گئی ہے۔
آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ:
عدالت نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا، جس میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار کی فریق بننے کی استدعا منظور کی جاتی ہے۔ فیصل صدیقی نے بتایا کہ وہ براہ راست نشریات کی درخواست کی پیروی نہیں چاہتے۔ حفیظ اللہ نیازی نے بتایا ان کے بیٹے گرفتار ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان سے فیملی ملاقاتوں کا معاملہ حل ہوچکا تھا میں سرپرائز ہوا کے ملاقاتیں نہیں ہو رہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے بتایا کہ ملزمان سے فیملی کی ملاقات نہیں ہو رہی، اٹارنی جنرل ان شکایات کا ازالہ کریں۔ کے پی کے حکومت کی اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹائی جاتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری اپیل منظور ہوتی ہے تو ملزمان فیصلوں کے خلاف اپیل کر سکیں گے، ملزمان ملٹری کورٹس کے علاوہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک آسکیں گے۔
آپ کوئی متوازی عدلیہ چاہتے ہیں؟ عدالت کا ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان سے مکالمہ
جسٹس جمال خان مندو خیل نے ملٹری کورٹس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کرنے والے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مکالمہ کیا کہ جناح صاحب نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے اسے آگ لگائی گئی، آپ کوئی متوازی عدلیہ چاہتے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے شہدا فاونڈیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل رات کیس کا ریکارڈ دیکھ رہا تھا، ریکارڈ کے مطابق جناح ہاؤس لاہور کو بھی آگ لگائی گئی تھی، یہ بعد میں دیکھیں گے کہ قائداعظم جناح ہاؤس میں کتنے دن رہے، زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی کو آگ لگائی گئی تھی، زیارت واقعہ پر شہدا فاؤنڈیشن کہاں تھی؟ کتنی درخواستیں دائر کیں؟ عدالت نے شہدا فاؤنڈیشن کے فریق بننے کی درخواست منظور کرلی۔
عدالت نے حامد خان کی فریق بننے کی درخواست پانچ دو سے منظور کرلی
عدالت نے حامد خان کی لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے فریق بننے کی درخواست پانچ دو سے منظور کرلی۔ پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے وڈیو لنک پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل ایک اندرونی انتظام ہے، اس کا اسکوپ اپیل سے زیادہ نظر ثانی کے قریب تر ہوگا۔
فیصل صدیقی نے کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست واپس لے لی
عدالت نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ حامد خان کو فریق بنانے پر آپ کیا کہتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے اس مشکل میں نہ ڈالیں، میں نے اس کیس کو براہ راست نشر کرنے کی متفرق درخواست دائر کی ہے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ براہ راست نشر کرنے کی سہولت صرف کورٹ روم ون میں ہے۔ فیصل صدیقی نے کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست واپس لیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس کیس کا جلد فیصلہ کرے میں ایسی درخواست کی پیروی نہیں کرتا۔
میری نظر میں اپیل کے لیے کابینہ منظوری نہیں چاہیے، اٹارنی جنرل
انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ اٹارنی جنرل نے پڑھ کر سنایا۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ہم نے اس کو نظر ثانی کے اسکوپ میں ہی دیکھنا ہے یا مکمل اپیل کے طور پر؟ سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق رولز بنانے تھے جو ابھی نہیں بنے، یہ رولز اب تک بن جانے چاہیے تھے۔ انٹرا کورٹ اپیل کو لا ریفارمز ایکٹ کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ جو چیزیں اصل کیس میں فیصلہ دینے والے بینچ کے سامنے نہیں تھیں وہ اب آپ دلائل میں نہیں اپنا سکتے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے اپیل واپس لی تو اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ یہ پہلے کابینہ کی منظوری لائیں، جن صوبوں نے اپیلیں دائر کی ہیں کیا انہوں نے کابینہ سے منظوری لی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری نظر میں اپیل کے لیے کابینہ منظوری نہیں چاہیے، اگر کابینہ منظوری لازم ہوئی تو پھر ٹیکس مقدمات میں بھی چاہیے ہوگی۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ آپ رولز میں سے بتا دیجیے گا کہ کیسے اپیل ہوتی ہے؟
انٹرا کورٹ اپیلوں میں تو صوبوں کو بھی نہیں سنا جانا چاہیے تھا، جسٹس شاہد وحید
عدالت نے جواد ایس خواجہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو بینچ پر اب اعتراض تو نہیں؟ وکیل نے جوان دیا کہ ہم اس بینچ سے خوش ہیں، استدعا ہے کہ کیس چلا کر فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ دیکھیں، اس فیصلے کی روشنی میں بتائیں اس اپیل کا اسکوپ کیا ہے؟ کیا ایسی اپیل میں ہم صوبوں کو سن سکتے ہیں؟ حامد خان نے کہا کہ میں نے لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دی ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کی فریق بنے کی درخواست کیسے سنی جا سکتی ہے؟ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کو ہم ویسے معاون کے طور پر سن لیں گے، آپ بار کی جانب سے کیوں فریق بننا چاہتے ہیں؟
حامد خان نے جواب دیا کہ اس معاملے پر بار کی ایک اپنی پوزیشن ہے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ ایسا ہے تو آپ کو پہلے اصل کیس میں سامنا آنا چاہیے تھا۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلوں میں تو صوبوں کو بھی نہیں سنا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ ہمارا وقت ضائع نہ کریں اصل کیس چلنے دیں، آپ نے بات کرنی ہے تو دیگر وکلا کی معاونت کر دیجیے گا۔
’حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی‘
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 5 ہفتوں سے فیملی کو ملزمان سے ملنے نہیں دیا جا رہا، لطیف کھوسہ نے گرہ لگائی کہ ملزمان کو برے حالات میں رکھا گیا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ ملاقات نہیں ہوئی تو کیسے پتا برے حالات میں رکھا گیا ہے؟ جواب ملا کہ جو لوگ پہلے ملے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، جن ملزمان کی ملاقاتیں کرائی گئی وہ بیڑیوں میں تھے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ اگر ملزمان کو ایسے رکھا گیا ہے تو وہ غلط ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جالب نے جیل میں ایسی ہی ملاقات پر کہا تھا ’حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی‘۔ اس پر جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ ہمیں شعر و شاعری نہیں آتی اصل کیس چلنے دیں۔
حفیظ اللہ نیازی نے عدالت کو بتایا کہ میرے بیٹے سے جو آخری ملاقات ہوئی اس عدالت کی مہربانی سے ہوئی۔ میری متفرق درخواست ہے کہ بیٹے سے متعلق اسی کو نمبر لگوا دیجیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم اس وقت اپیل سن رہے ہیں۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی درخواست لی تو نہ جانے اور کتنی درخواستیں آجائیں گی اور اصل کیس رہ ہی جائے گا۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ بہتر ہوگا اس کیس کو ہی چلا کر فیصلہ کریں۔
حفیظ اللہ نیازی نے آئین پاکستان ہاتھ میں اٹھا کر کہا کہ میرا بیٹا 11 ماہ سے جسمانی ریمانڈ پر ہے، بتائیں آئین میں یہ کہاں لکھا ہے؟ مولانا ابو الکلام نے کہا تھا کہ سب سے بڑی نا انصافی جنگ کے میدانوں میں یا انصاف کے ایوانوں میں ہوتی ہے۔