شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی چڑھایا گیا: سپریم کورٹ کی بھٹو کی پھانسی کے متعلق ریفرنس پر رائے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے متعلق صدارتی ریفرنس پر تفصیلی رائے جاری کر دی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48صفحات پر مشتمل رائے تحریر کی، جسٹس سردارطارق مسعود،جسٹس منصورعلی شاہ تحریری رائےمیں اضافی نوٹ دیں گے۔
تفصیلی تحریری میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس 2011 میں آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت دائر کیا گیا تھا، ریفرنس میں سپریم کورٹ سے 5 سوالات پر رائے مانگی گئی تھی، سپریم کورٹ نے 12 نومبر 2012 کو صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت کی تھی، یہ صدارتی ریفرنس 11سال تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا، ریفرنس کی سماعت کرنے والے تمام 9جج اس دوران ریٹائر ہوگئے، تاہم 12 دسمبر 2023 کو صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے دوبارہ مقرر کیا گیا، 11 برس کے دوران متعدد صدارتی ریفرنس آئے جن پر سماعت کی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر تفصیلی رائے میں لکھا کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی چڑھایا گیا، ملک اور اس کی عدالتیں اس وقت مارشل لاء کی قیدی تھیں، آمرکی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالتیں پھر عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں۔
تفصیلی رائے میں کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا، اگربھٹو کو رہا کر دیا جاتا تو وہ ضیاء الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلاسکتے تھے۔جنرل ضیاءالحق کی بقا اسی میں تھی کہ بھٹو کو سزا سنا دی جائے۔
تفصیلی رائے میں کہا گیا کہ 5 جولائی 1977 کو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے جمہوری حکومت ختم کر کے مارشل لاء لگا دیا، احمد رضا خان کے قتل کی تحقیقات 3 مئی 1976 کو بند کر دی گئی تھی، احمدرضاخان کے قتل کی تحقیقات ڈائریکٹر ایف آئی اے کے زبانی احکامات پر دوبارہ کھول دی گئی، 18 ستمبر 1977 کو حتمی چالان میں مسعود محمود، میاں محمدعباس کو سلطانی گواہ ظاہر کیا گیا۔
تفصیلی رائے کے مطابق فرد جرم 11 اکتوبر 1977 کو عائدکی گئی، ملزمان نے فرد جرم سے انکار کیا، 11 اکتوبر 1977 سے 25 فروری 1978 تک ہائیکورٹ نے بطور ٹرائل کورٹ مقدمہ سنا، استغاثہ کے 41 گواہوں اور صفائی کے صرف 4 گواہوں کی شہادتیں قلم بندکی گئیں،2 مارچ 1978 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 18 مارچ 1978 کو سنایا گیا، بھٹو کو اعانت جرم، قتل،اقدام قتل،قتل کی سازش کے تحت سزائے موت سمیت 12 سال کی سزا سنائی گئی۔
تفصیلی تحریری رائے میں کہا گیا کہ بھٹو نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 4 تین کی اکثریت بھٹو کی اپیل مسترد کر دی، بھٹو کی نظر ثانی اپیل 7 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر مستردکی۔
تحریری رائے میں کہا گیا کہ بھٹو کے ڈیتھ وارنٹ پر جسٹس مشتاق حسین نے دستخط کیے جو چیف جسٹس لاہور بن چکے تھے، بھٹو کی پھانسی کی سزا پر عملدر آمد کیلئے پہلے 2 اپریل 1979 رکھی گئی، سزائے موت پر عملدر آمد کی تاریخ تبدیل کر کے 4 اپریل 1979 کی گئی۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے متعلق صدارتی ریفرنس کی تحریری رائے میں کہا گیا کہ عدالت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ عدالت نے نہ اپیل نہ ہی نظرثانی سنی ہے، آئین اور قانون میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزا کالعدم قرار دینے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سماعت آرٹیکل 186 کے تحت مشاورتی اختیار کے تحت کی، مشاورتی اختیار سماعت کے تحت سزا کو کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تحریری رائے میں یہ بھی کہا گیا کہ ہائی کورٹ کو قتل کے مقدمے کا ٹرائل کرنے کا اختیار نہیں تھا، پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں کہ ہائی کورٹ نے قتل کا ٹرائل کیا ہو، ہائی کورٹ نےاس ٹرائل سے پہلے نہ اس ٹرائل کے بعد کوئی ایسا ٹرائل کیا۔
تفصیلی تحریری رائے کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی صدارتی ریفرنس پر رائے سے اتفاق کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس حسن اظہر رضوی اضافی نوٹ لکھیں گے۔
تفصیلی تحریری رائے میں جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کی معاونت پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔
تفصیلی تحریری رائے میں کہا گیا کہ جسٹس سردار طارق مسعود ریٹائرمنٹ سے پہلے صدارتی ریفرنس پر رائے پر دستخط کر چکے تھے، جج کے دستخط کے بعد جسٹس سردار طارق مسعود بعد ریٹائرمنٹ تفصیلی وجوہات لکھ سکتے ہیں۔