اپنے لوگوں کیلئے کچھ نہیں کرسکا‘، اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے، اس سیاست سے بہترہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں، 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہونگے ان سے معافی مانگتا ہوں‘سربراہ بی این پی
کوئٹہ / اسلام آباد(قدرت روزنامہ) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے قومی اسمبلی کے نشست سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا، بلوچستان کے حالات دیکھ کرفیصلہ کرکے آیا تھا، میں ریاست، صدر اور وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں
پورے نظام پر عدم اعتماد کر رہا ہوں ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے، اس سیاست سے بہترہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں، 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہونگے ان سے معافی مانگتا ہوں‘جب بھی اس مسئلے پر بات شروع کو تو بلیک آوٹ کر دیا جاتا ہے، میری باتوں پر اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں، اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے
مجھے بے شک پارلیمنٹ کے باہر انکاؤنٹر کردیں یا مار دیں لیکن بات تو سنیں ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں اور نہ کوئی بات سنتا ہے‘ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا
سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ میں آج اسمبلی سے استعفیٰ کا اعلان کرتا ہوں، یہ بات میں نے کسی کو نہیں بتائی لیکن آج ابھی اس پریس کانفرنس میں بتا رہا ہوں انہوں نے کہا کہ میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا، بلوچستان کے حالات دیکھ کرفیصلہ کرکے آیا تھا
میں ریاست، صدر اور وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں، پورے نظام پر عدم اعتماد کر رہا ہوں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے معاملے پرلوگوں کی دلچسپی نہیں، میں اپنے لوگوں کیلیے کچھ نہیں کرسکا، جب بھی اس مسئلے پربات کرو توبلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے، ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے
اس سیاست سے بہترہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں، 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہونگے ان سے معافی مانگتا ہوں بی این پی کے سربراہ نے اپنا استعفیٰ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا جہاں سیکرٹری قومی اسمبلی نے اسے وصول کیا میں نے آج فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل پر بات کروں گا لیکن بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں ہے بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے
میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے، بلوچستان میں بہت سے لوگوں کا خون بہہ چکا ہے، اس مسئلے پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیے اس مسئلے پر ایک اجلاس بلانا چاہیے تھا جس میں اس مسئلے پر بات ہوتی انہوں نے کہا کہ جب بھی اس مسئلے پر بات شروع کو تو بلیک آوٹ کر دیا جاتا ہے
میری باتوں پر اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں، اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے، مجھے بے شک پارلیمنٹ کے باہر انکاؤنٹر کردیں یا مار دیں لیکن بات تو سنیں ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں اور نہ کوئی بات سنتا ہے .
.