پاکستان میں موجود پڑھی لکھی افغان خواتین صحافی

 

تحریر(سٹوری) :خالق خان

افغانستان میںخواتین کی اعلی تعلیم پر پابندی کے باعث لاکھوں افغان بچیوں کا مستقبل داو پر لگا ہےحسینہ حمتی بھی انہی مشکلات کے باعث اپنے خوابوں کو چکنا چور ہوتے ہوئے دیکھ رئی ہیں،حسینہ حمتی گزشتہ 2 سالوں سےپاکستان میں صحافتی سرگرمیوں سے منسلک ہیں ،حسینہ دیگر نوجوان بچیوں اور خواتین کی طرح پاکستان میں رسمی صحافت کرناچاہتی ہیں۔ حسینہ حمتی کاتعلق افغانستان کےصوبے لوگر سے ہے،انکا خاندان سن1990 میں پاکستان آئے تھے، پاکستان میں صحافت جیسے شعبے میں تعلیم حاصل کرنا اور لوگوں کی آواز بننا انکی شدید خواہش تھی لیکن ان کیلئے حالات کبھی قدر سازگار نہیں رہے۔
حسینہ حمتی نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سیٹیزن جرنلزم شروع کرنے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کرنے کا فیصلہ کیا ہے،وہ اب سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے زریعے عوامی مسائل اجاگر کر رئی ہیں۔

ا مسال عالمی خواندگی کے عالمی دن کے مناسبت سے افغانستان میںخواتین کی تعلیم پر لگائی گی پابندی کو 3سال ہونے کو ہے،حسینہ حمتی اور ان کا خاندان سن 1990 ء میں افغانستان سے پاکستان آئے تھے وہ بتاتی ہیں کہ ٰان دنوں بھی افغانستان میں طالبان حکومت کیلئے لڑ رہے تھے، جس کے باعث افغانستان میں پڑنا ناممکن تھا ، انکے مطابق پاکستان میں اُس وقت بھی شناختی کارڈ یا شہریت نہ ہونے کے باعث مجھے تعلیم حاصل کرنے کیلئےواپس افغانستان جانا پڑا ۔افغانستان میں رسمی تعلیم 12 جماعت یا ایف ایس سی تک پہنچی اور ختم کیا ہی تھا کہ طالبان پھر سے افغانستان پر قابض ہوگئے اور طالبان نے احکام صادر کیے کہ لڑکیوں کی اعلی تعلم پر پابندی ہوگی اور لڑکیاں مزید تعلیم حاصل نہیں کریںگی۔

اگست سال 2021میں افغانستان میں ریجیم چینج کے باعث منتخب حکومت کا تختہ پلٹا گیا اور طالبان افغانستان پر قابض ہوگئے ،بدامنی اور جنگی صورتحال افغانستان میں کئ لوگوں کیلئے باعث تشویش تھےاس دوران افغانستان سے کئ لاکھ لوگوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ،میڈیا رپورٹس اور یو این ایچ سی آر کے ڈیٹا کے مطابق 36 لاکھ لوگوں نے افغانستان چھوڑ کر ہمسایہ ملک پاکستان میں پناہ لی ،جبکہ دس لاکھ افغان شہریوں نے ہمسایہ ملک ایران میں پناہ کی خاطر سکونت اختیار کی۔اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR)کے مطابق افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے سے ایک کروڑ نو لاکھ افغان بے گھر ہوئے ہیں۔

 

پاکستان میں افغان مہاجرین کو قانونی دستاویزات کے مطلق کیا مسائل درپیش ہیں؟
پاکستان میں افغان مہاجرین کو کئی مسائل درپیش ہیں،جن میں قانونی دستاویزات سرے فہرست ہیںپاکستان میں موجود افغان پناہ گزین کو سیاسی پناہ ملنا کسی خواب سے کم نہیں ہے،ماہر قانون اور بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر افضل خان حریفال کے مطابق، پاکستانی شہریت کا حق پاکستان سیٹیزنشپ ایکٹ کے تحت دیا جاتا ہے،ان کے مطابق پاکستان میں مہاجرین کی بڑی تعداد غیر قانونی ہیں جنہیں قانونی طور پر شہریت نہیں دی جا سکتی لیکن انکے جملہ حقوق کا تحفظ موجود ہے ۔
غیر ملکیوں کا پاکستانی شہریت حاصل کرنا قدرے مشکل ہے اسکی بڑی وجہ قانون دان غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے ،اور پاکستانی قانون سے لاعلمی گردانتے ہیں، وکیل ناصر خان کاکڑ کے مطابق پاکستان میں پناہ گزین افغان شہریوں کی بڑی تعداد پاکستان کے قانون سے نابلد ہوتے ہیں،اکثر افغان مہاجرین قانونی لڑائی لڑنے کیلئے ذہنی اور معاشی طور تیار نہیں ہوتے،ان کے مطابق مہاجرین میں کئ خاندان ایسے بھی ہیں جو سن 1979 میں پاکستان آئےتھے لیکن آب تک پاکستان کے قانونی شہریت کیلئے اپلائی نہیں کرپارہے۔

پاکستان میں افغان صحافی کیوں مشکلات کے شکار ہیں؟
طالبان حکومت کے بر سر اقتدار آنے سے افغانستان چھوڑنے والے افغان صحافی پاکستان میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں،غیر یقینی مستقبل اور انتظامی مسائل کے باعث افغان صحافی کافی پریشان ہیں،پاکستان میں ابتر سیاسی صورتحال اور بےروزگاری کی وجہ سے شدید ذہنی دباو کے شکار ہیں،افغان صحافی فرشتہ عزیزی کا کہنا ہےکہ ہمیں اس پریشانی کے بغیر زندگی گزارنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے، جس کا ہم میں سے ہر ایک کی صحت پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔کوئٹہ میں صحافتی خدمات سرانجام دینے والی صحافی حسینہ حمتی کہتی ہیںکہ ہمیں پاکستان کے میڈیا میں مواقع چایئےتاکہ ہم اپنے کمیونٹی اور اس کے مسائل کو منظر عام پر لا سکیں۔

رپورٹرز ویداوٹ بارڈرز نامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق پاکستان میں دو سو کے قریب افغان صحافی مقیم ہیںجن کو روزانہ کی بنیاد پر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے حراسہ کیا جاتا ہے،ڈائریکٹر رپورٹرز وداوٹ بارڈرز ((RWB اقبال خٹک کے مطابق افغان صحافیوں کوپاکستان میں روزمرہ کی زندگی میں کافی مشکلات کا سامنا ہے،انہیں اچانک اپنے صحافتی کیرئرز کا خاتمہ کرنا پڑا ،اقبال خٹک کے مطابق انہیں نئے امکانات فراہم کرنے کے لیے دیرپا حل تلاش کرنا ضروری ہے، خاص طور پر ان کی پیشہ ورانہ زندگیوں کیلئے۔

افغان پناہ گزینوں کیلئے سیاسی پناہ یا ایزالم حاصل کرنا کیوں مشکل ہے ؟
پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے،ایڈوکیٹ افضل خان حریفال کہتےہیں کہ سیاسی پناہ کا حصول ممکن بنانا وفاقی حکومت کی پالیسوں کے بدولت ممکن ہوتا ہے، اُن کے مطابق حکومت اب تک ایسی کوئی پالیسی مرتب ہی نہیں کرپائی کہ کن اصولوں اور ضوابط کے تحت ایزالم کا حق کسی بھی غیر ملکی کو دیا جاسکے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کے ترقی پزیر ممالک میں سیاسی پناہ کیلئے درخواست دینےکی شرح کافی کم ہے،بلخصوس اُن ممالک میں جہاں سکورٹی کے خدشات ذیادہ ہوں،
پنجاب ہونیورسٹی لاہور کے شعبہ انٹر نیشنل ریلیشنز سے تعلق رکھنے والے محمد خان بتاتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے خطے میںغیر ہموار اور متزلز تعلق کے باعث بھی پاکستان ،افغان شہریوں کو سیاسی پناہ کا حق نہیں دئے پارہا ہے ان کے مطابق اگرچہ پاکستان اس متحمل نہیں ہے کہ بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کو سیاسی پناہ دے لیکن اتنا ضرور کرسکتا ہے کہ افغان معاشرے کے کمزور اور غیرمحفوظ افراد کو سیاسی پناہ دیے سکے۔

 

افغان صحافیوں کے کام پر پابند ی سے زیادہ متاثر کون ہیں؟
حسینہ حمتی کہتی ہیںکہ صحافت میرے لئے عبادت کے مانند ہے،شعبہ صحافت مجھے بچپن سے پسند تھا اسلئےچاہتی تھی کہ ایک بہترین صحافی بن کر پاکستان اور افغانستان کے بیچ مسائل کی طرف توجہ مبذول کراسکوں اور خطے میں پایدار آمن کیلئے کام کرسکوں ان کے مطابق مجھ سمیت دیگر افغان خواتین صحافی صرف اس لیے پاکستانی میڈیا ہاوسز میں کام نہیں کرسکتے کیوں کہ ہمارے پاس پاکستانی ڈاکومنٹس نہیں ہیں، افغانستان میں پروفیشنل صحافیت پڑنے اور صحافیانہ کام کرنے کے باوجود ہم پاکستان میں صرف دستاوزات نہ ہونے کی وجہ سےبےروزگار ہیں۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والےسینئر صحافی عاصم احمد خان کے بتاتے ہیں کہ پاکستان کی نیشل اور انٹر نیشنل اداروں میں افغان جرنلسٹس کا ہونا بے حد ضروری ہے،ان کے مطابق پاکستان کے کئ دیگر ادروں میں افغان شہری خدمات سرانجام دےرہےہیں اسی طرح افغان صحافیوں کو بھی یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ پاکستانی میڈیا میں کام کرسکیںاور مہاجرین کے مطلق مسائل کو بہتر انداز سے نمایاں کرسکیں ،ان کے مطابق افغان صحافیوں کا پاکستان کی میڈیا میں نہ ہونے سے سب سے زیادہ افغان مہاجرین ہی متاثر ہوں گےکیوںکہ ان کےپیچیدہ مسائل کو اجاگر کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

 

پاکستان میں افغان مہاجرین کہاں آباد ہیں؟
ایک ہی زبان اور مشترک ثقافت رکھنے کے باعث افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان کے پشتون علاقوں میں آباد ہیں،پاکستان میںآبادی کے لحاظ سے پشتونوں کی آبادی دوسرے نمبر پر ہے،خیبر پشتونخوا اور بلوچستان کا پشتون بیلٹ والے علاقوں میں موجود لوگوں کے ایک ہی، نسل ،زبان اور ثقافت کے نمایندہ ہونےکی وجہ سے افغانستان سے آنے والے لوگوں کاان علاقوں میں گرمجوشی کےساتھ استقبال کیا جاتاہے۔یہ علاقے بلوچستان میں ضلع پشین ،لورالائی ،ژوب ،چمن جبکہ پشاور ،مردان ،دیر، کوھاٹ اور چارسدہ شامل ہیں۔یو این ایچ سی آر کےڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اس وقت اکتیس لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں۔جنکی اکثریت پشتون علاقوں میں ہیں۔

 

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا مہاجرین پر کیا اثرات مرتب ہوئے ؟
سال 2023میں پاکستان کے مختلف علاقوں میںجنوری سے اگست تک 24 دہشتگردانہ واقعات رپورٹ ہوئے،پاکستان کی عبوری حکومت نے الزام لگایا کہ ان 24واقعات میں سے 16واقعات میں افغان نیشنلز کے ملوث ہونے کے شواید ملے ہیں،ان واقعات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بگھڑنے لگے،کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اور افغان امور کے ماہر نقیب خان کہتےہیںکہ طالبان اورپاکستان کے بیچ ناہموار اور ناخوشگور تعلقات کے باعث پاکستانی حکام نے بڑے پیمانےپر غیررجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ،ان کے مطابق ماس ڈیپورٹیشن کرنے کے حوالے سے پاکستان میں کوئی پالیسی موجود نہیںتاہم اس منصوبے کو کسی حد تک نافظ العمل بنایا گیا،ان کے مطابق یہ طریقہ افغان طالبان کو وارننگ دینا بھی تھاجسے طالبان سمجھ گئے۔نقیب خان بتاتے ہیں کہ پاکستان اور طالبان گورنمٹ کی چپقلش کے برائےراست اثرات پاکستان میں موجود افغان مہاجرین پر پڑے ،جس سے پاکستان سمیت افغانستان کی بھی معاشی اور سماجی صورتحال بدل گئ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل میں مہاجرین کے حقوق کے لیے مہم چلانے والے جیمز جینین نے پاکستانی حکام کے ماس ڈیپورٹیشن کے حوالے سے کہا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے ظلم و ستم، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور انسانی ہمدردی کی تباہی کے بارے میں بے حسی ہےاور فغان پناہ گزینوں کو طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان بھیجنا دل دہلا دینے والا ہے۔ ملک بدری کو روکنے کے لیے بار بار کی جانے والی عالمی کالز پر دھیاں دینے کے بجائے، نو منتخب پاکستانی حکومت (عبوری حکومت)نے مایوس کن طور پر اب افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہولڈرز کے لیے بھی ملک بدری کی مہم کو بڑھا دیا ہے۔

کیا افغانستان کی حالیہ صورتحال اس قابل ہے کہ مہاجرین بلخصوص غیر محفوظ افراد کو واپس بیجھا جاسکے؟
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین کےمطابق اس وقت افغانستان میں ایک اندازے کے مطابق 23.7 ملین افغان آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ ، بشمول خواتین اور لڑکیاں کوانسانی اور تحفظاتی امداد کی ضرورت ہے۔یواین ایچ سی آر کے مطابق سال 2023 کے آخر تک عالمی سطح پر رپورٹ ہونے والے افغان پناہ گزینوں کی تعداد 6.4 ملین تھی جو دنیا میں پناہ گزینوں کی طویل ترین صورتحال میں سے ایک ہے۔افغانستان میں چالیس لاکھ سےزائد آبادی کی نصف آبادی کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔صحافی وافغان امور کے ماہر ظفر خان اچگزئی کے مطابق افغاانستان ،طالبان کی حالیہ پالیسوں کےباعث گمبھیر مسائل سے دوچار ہےاس صورت میں پاکستان سیاسی پناہ کی غرض سے آنے والوں کو واپس بھیجنا یا انہیں پاکستان میں رازگار مہیا نہ کرنا حکومت کی سیاسی غلطی ہوگی ۔انکے مطابق صحافی معاشرےکا چہرہ ہوتے ہیں ان کے لئے نہ صرف پاکستان میں تحفظ ہونا چاہیے بلکہ ساتھ ہی انہیں پاکستانی میڈیا سمیت بین الاقوامی ادروں میں بھی کام کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔تاکہ حسینہ سمیت دیگر باہمت خواتین اور لڑکیاں صحافت میں کام کرسکیں اور اپنے خوابوں کو پورا کر سکیں۔

خالق خان