وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے جو باتیں کی، خودکشی کے مترادف ہیں، خواجہ آصف


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے جو باتیں کی وہ خودکشی کے مترادف ہیں۔ انہوں نے جو زبان استعمال کی، وہ زبان استعمال نہ کی ہوتی تو یہ گرفتاریوں والا واقعہ نہ ہوتا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں والا واقعہ ردعمل نہ ہوتا تو میں اس کی ضرور مذمت کرتا۔ جب آپ حدود کراس کرتے ہیں، آپ جب فیڈریشن کو چیلنج کرتے ہیں، آئین کو چیلنج کرتے ہیں، جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرتے ہیں کہ آپ لشکر لے کر پنجاب پر حملہ آور ہوں گے، آپ مریم نواز کا نام لے کر کہتے ہیں کہ بارات لے کر جائیں گے، اس قسم کی باتیں خودکشی کے مترادف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اختلافات چلتے رہیں گے، اختلافات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ سیاسی اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں۔ وہ اختلافات ہی رہنے چاہئیں، ذاتی دشمنیوں میں تبدیل نہیں ہونے چاہئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے جس معاہدے پر دستخط کیے تھے، مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں اس تقریب میں موجود تھا۔پاکستان کی جمہوریت میں پہلی دفعہ ایک پیش رفت ہوئی تھی۔
پارلیمان پر قبضہ، دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی‘
’دو متحارب پارٹیوں نے اس سوچ کی بنیاد رکھی کہ ہم نے پارلیمانی جمہوریت کو آگے بڑھانا ہے۔ اور پارلیمانی جمہوریت کی حفاظت کرنی ہے۔ ان کوششوں میں رخنے آئے لیکن کوئی ایک لمحہ نہیں آیا کہ ہم نے نوے کی دہائی کی تلخی کی طرف واپسی کی ہو۔ ہمارے رابطے بھی رہے اور اختلافات بھی رہے۔‘
وزیر دفاع نے تحریک انصاف کے 126 دن کے دھرنا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی ایسی مثال قائم نہیں ہوئی کہ پارلیمان پر قبضہ کرلیا جائے۔ لیکن کئی ہفتوں تک وہاں لوگ نہاتے تھے، وہیں کپڑے بدلتے تھے، وہیں اپنے کپڑے سکھاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی قید ہوئے، آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ بھی قید ہوئیں۔ بہت سے دیگر ارکان پارلیمان قید ہوئے لیکن کبھی کوئی پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوا۔لیکن ہم کبھی اس ایوان کے وقار اور قدرمنزلت کو کم نہیں ہونے دیا۔ کبھی ووٹنگ کے لیے پروڈکشن جاری ہوتا تھا تو صبح جاری ہوتا تھا، اور شام کو ہم پھر جیل میں ہوتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے۔ گزشتہ پچھتر برس میں ہماری جمہوریت اپنے پاؤں پر اس طرح کھڑی نہیں ہوئی جیسے اسے کھڑا ہونا چاہیے۔ تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ایوان کی قدرومنزلت کو بحال رکھنا پڑے گا کیونکہ ہم اس کا حصہ ہیں۔
’پی ٹی آئی ارکان کے پروڈکشن آرڈرز پر مجھے کوئ اعتراض نہیں‘
خواجہ آصف نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو دس لوگ پرسوں گرفتار ہوئے ہیں، آپ ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ میں ایسی سوچ نہیں رکھتا کہ ہمارے پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں ہوئے تھے، اس لیے اب ان کے بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے جو زبان استعمال کی، وہ زبان استعمال نہ کی ہوتی تو یہ گرفتاریوں والا واقعہ نہ ہوتا۔ اگر یہ واقعہ ردعمل نہ ہوتا تو میں اس کی ضرور مذمت کرتا۔ جب آپ حدود کراس کرتے ہیں، آپ جب فیڈریشن کو چیلنج کرتے ہیں، آئین کو چیلنج کرتے ہیں، جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرتے ہیں کہ آپ لشکر لے کر پنجاب پر حملہ آور ہوں گے، آپ مریم نواز کا نام لے کر کہتے ہیں کہ بارات لے کر جائیں گے، اس قسم کی باتیں خودکشی کے مترادف ہیں۔ اس ایوان اور جمہوریت کے لیے خودکشی کے مترادف ہے۔
پرسوں رات کئی لائینز کراس ہوئیں، آئین کی، فیڈریشن کی، اس ملک کی حفاظت کی، اور اخلاقیات کی بات جانے ہی دیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان گرفتار ہیں تو ہماری لیڈرشپ بھی گرفتار رہی ہے۔ ہم نے اسے ایسا ایشو نہیں بنایا تھا۔ ہماری جو لنگڑی لولی جمہوریت ہے، جو سسٹم یہاں چل رہا ہے، اسے برقرار رکھنے کے لیے ہم نے ایسی زبان استعمال نہیں کی جیسے اس روز استعمال کی گئی۔
خواجہ محمد آصف نے کہا کہ اگر اسی طرح سلسلہ چلتا رہا تو یہ ملک اور اس کے ادارے مفلوج ہوجائیں گے۔ میں نے چونتیس سال اس ایوان میں گزارے ہیں۔ اس ایوان کے اندر بہت تلخیاں دیکھی ہیں، لیکن جو تلخی اس وقت ایوان میں نظر آ رہی ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
’احتجاج کریں لیکن ریڈ لائنز کراس نہ کریں‘
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کوئی سزا نہیں ہوئی تھی لیکن انہوں نے گیارہ برس جیل میں گزارے۔ لیکن عمران خان کو سزا ہوئی۔ یقیناً تحریک انصاف والوں کو اس سے اختلاف ہوگا، اختلاف کرنا ان کا حق ہے۔ لیکن اس اختلاف سے آئین، اس ایوان اور ملکی وحدت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ آپ احتجاج کریں، ہر قسم کا احتجاج کریں، لیکن ریڈلائنز کراس نہ کریں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ایوان کو چاہیے کہ وہ گرفتاریوں والا معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی کے سپرد کردے۔ آپ آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کریں۔ آپ کی حیثیت ایمپائر کی ہے۔ آپ اس ایوان کی بقا کے لیے سب پارٹیوں سے بات کریں۔ اس ایوان کی بقا اس ملک کی وحدت کی بقا ہے۔ اگر ایوان کا یہ سلسلہ ڈسٹرب ہوا تو ہمارا ووٹ ہم سے مایوس ہوگا، پاکستانی قوم مایوس ہوگی۔
’پاکستانی معیشت پر اعتماد بحال ہورہا ہے‘
ہم نے سفر شروع کیا ہے، اس میں ہم چند قدم چلے ہیں۔ مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے، ترسیلات زر بہت اچھی طرح بہتر ہو رہی ہیں،اس کا مطلب ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد بڑھا ہے۔ برطانیہ سے ترسیلات زر میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے، متحدہ عرب امارات سے گزشتہ ماہ 74 فیصد بڑھی ہیں۔ اعتماد بحال ہورہا ہے۔ اگر اعتماد بحال ہوا تو جمہوریت مضبوط ہوگی، اس کا سب کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ وہ کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ ایوان فعال ہوجائے۔ اس ایوان کی آئینی ذمہ داریاں پوری ہوسکیں۔