کوئی فرق نہیں پڑتا ہمارے سامنے سنی اتحاد کونسل تھی یا پی ٹی آئی، مخصوص نشستیں کیس کا تفصیلی فیصلہ


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جس میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر وضاحت بھی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے ، پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے، یہ عدالت متعدد مقدمات میں کہہ چکی مکمل انصاف کرتے ہوئے عدالت کسی تکنیکی اصول کی پابند نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عام طور پر عدالت یہ کرتی کہ پہلے پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کیلئے منظور کرتی پھر ریلیف دیتی، لیکن عدالت اس طریقہ کار میں اس وقت نہیں پڑتی جب عوام کے ووٹر کا تحفظ اور آرٹیکل 17 کی شق دو اور آرٹیکل 19 کا معاملہ ہو، ایسے وقت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے سامنے سنی اتحاد کونسل تھی یا پی ٹی آئی یا کوئی اور سیاسی جماعت۔
آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے
فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن میں بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازعہ بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے اور ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا۔
الیکشن کمیشن کردار ادا کرنے میں ناکام
عدالت نے الیکشن کمیشن کے رویے پر بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، حالانکہ اس کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے، الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے اور وہ فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔
فیصلے کے مطابق رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے، رول 94 کے تحت مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو۔
فیصلے میں کہا گیا کہ رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے، انتخابی نشان واپس لئے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہوگئے۔
اکثریتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے جزوی طور پر جوڈیشل امور سرانجام دیے، جبکہ کمیشن کو یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ فیصلہ ایسے اعلیٰ عدالتی فورم پر چیلنج کرے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈیول جاری ہو چکا ہے، پارٹی کے اندرونی معاملے پر شہریوں کے ووٹ دینے کے بنیادی حقوق کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلہ نظرثانی میں زیرالتواء ہے اس لئے اس پر رائے نہیں دے سکتے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جب عدالت مکمل انصاف کی فراہمی کی آئینی شق 187 کی ذیلی شق ایک کی طرف جاتی ہے تو عدالت رائج طریقہ کار یا پریکٹس کے سبب بے یارو مددگار نہیں ہوتی اور اس پر انخصار نہیں کیا جاتا کہ کسی سیاسی جماعت کی درخواست آئی تھی، جب الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں غلطیاں کرے تو ان غلطیوں کو سدھارنے کیلئے عدلیہ کی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے، انتخابی عمل کی ساکھ کو نیچا دیکھانے سے جمہوریت نیچے ہوگی، انتخابی تنازعات دیگر دیوانی مقدمات کے تنازعات سے یکسر مختلف ہوتا ہے، انتخابی تنازعات میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کے ووٹوں سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا تھا۔