ریٹائرڈ اور ایڈہاک ججز کی تعیناتی نہیں ہونی چاہیے، ایمل ولی خان


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ ریٹائر اور ایڈہاک ججز کی تعیناتی نہیں ہونی چاہیے اور یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہائیکورٹ کے وکیل کو براہ راست جج تعینات کردیا جاتا ہے۔
کراچی میں نیشنل لائرز فورم کے نومنتخب عہدیداران کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے صدر اے این پی ایم ولی خان نے کہا کہ سب کو پتا ہے کہ ان ججز کو کون تعینات کرواتا ہے، آئین کے طالب علم جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ صرف ایک ایپلٹ کورٹ ہے، سپریم کورٹ میں صرف وہی کیسز چلتے ہیں جن کے ٹکرز میڈیا میں چل سکتے ہوں۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ موقع کو دیکھ کر کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ عمل کو دیکھنا چاہیے، پاکستان میں تمام اداروں کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے، پاکستان میں بد قسمتی سے ججز بولتے ہیں مگر ان کے فیصلے نہیں بولتے۔ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے عدلیہ کی آزادی اور بالادستی کے لیے کام کیا تھا نہ کہ کسی جج کی بدمعاشی کے لیے قربانیاں دیں۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والوں کو معافی مانگی چاہیے، سیاست دانوں میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں، ہم 12 مئی کے شہدا ہیں، ہمیں نہیں پتا تھا کہ ہم فرعونوں کو فروغ دے رہے ہیں، افتخار چوہدری ایک فرعون بن کر دنیا کے سامنے آئے، اگر پہلے پتا ہوتا تو ہم اس تحریک کے لیے کام نہیں کرتے، ثاقب نثار ٹی وی پر کہتا تھا 4، 5 ایم این ایز کو ادھر اُدھر بھیجنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، ایک جج کو ساس سے ڈکٹیشن لے کر فیصلہ کرتے ہوئے بھی دیکھا۔
اے این پی کے صدر ایمل ولی خان نے نیشنل لائرز فورم کے نومنتخب عہدیداروں سے حلف لیے اور کہا کہ قانون سازی میں باتیں ہوسکتی ہیں، میں آپ کے نظریہ کے ساتھ ہوں، مئی 2007 میں وکلا کی قربانیاں تھیں، اس وقت اے این پی کا بھی اس تحریک میں چھوٹا سے حصہ تھا، عدلیہ کی آزادی کے لیے ہمارے 21 کارکنوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے، خان عبدالولی خان کے دور میں پاکستان کو 73 کا آئین ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی نے بلوچستان کی محرومیوں کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے، بہت محنت کے بعد 18ویں آئینی ترمیم کامیاب ہوئی، ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں، 18ویں آئینی ترمیم میں ہمیں پختونخوا کے نام سے آئین میں شناخت ملی تھی۔