شرح سود میں کمی کے عام آدمی اور معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 2.5 فیصد کمی کردی ہے، رواں برس 10 جون کے بعد سے شرح سود میں مجموعی طور پر 5.5 فیصد کمی کی گئی ہے، شرح سود 22.5 کی بلند سطح سے کم ہو کر اب 15 فیصد پر آ گئی ہے۔
شرح سود کم ہونے سے معیشت کو کیا فوائد حاصل ہوں گے اور کیا اس سے مہنگائی میں کمی آئے گی؟ ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے وی نیوز کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک کا شرح سود میں کمی کا فیصلہ خوش آئند ہے، ملک بھر میں جو مہنگائی میں کمی ہوئی ہے وہ آئی ایم ایف، حکومت اور لوگوں کی توقع سے زیادہ ہے۔
’اسی لیے شرح سود میں بڑی کمی کا موقع تھا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کنٹرول میں ہے، اس وقت تک سب کچھ ہدف کے مطابق چل رہا ہے صرف ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل نہیں ہو رہا، اس کے علاؤہ تمام معاشی اشارے درست جانب ہیں۔‘
ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق اب اگر حکومت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کر لے اور زراعت کو فروغ دے تو ملک بڑی ترقی کرسکتا ہے۔’اس کے علاوہ جو بڑے سرمایہ کار بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھتے تھے اب شرح سود میں کمی کے بعد وہ سرمایہ بھی مارکیٹ میں لائیں گے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘
ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کو بھی مختلف طریقوں سے فائدہ ہوتا ہے، اگر کسی نے گھر لیز پر لیا ہوا ہے تو اس کی لیز کم ہوگئی ہے، کسی نے بینک سے گاڑی لی ہوئی ہے تو اس کی گاڑی کی ماہانہ قسط میں کمی ہوگئی ہے، اس کے علاوہ مہنگائی میں بھی کسی حد تک کمی ہو گی۔
ماہر معیشت ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ شرح سود ایک سال میں اتنی بڑی کمی معیشت کی بہت بڑی جیت ہے، شرح سود کم ہونے سے ملک بھر میں سرمایہ کاری بڑھے گی، چھوٹے کاروبار کو فروغ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
’اس کے علاوہ اشیا بنانے کی قیمتوں میں کمی کے باعث مہنگائی میں بھی کمی ہوگی، روپے کی قدر مستحکم ہے، تو امید کی جا رہی ہے آئندہ ماہ میں شرح سود میں مزید کمی جاسکتی ہے، ہوسکتا ہے کہ چند ماہ میں گروتھ ریٹ بھی بڑھ کر 6 فیصد ہو جائے۔‘
معاشی تجزیہ کار محمد سہیل کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں مسلسل کمی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں اب معاشی استحکام آ گیا ہے اس مرتبہ شرح سود میں 2 فیصد کمی توقع کی جا رہی تھی تاہم اسٹیٹ بینک نے ڈھائی فیصد کمی کی ہے.
’پاکستان میں آئی ایم ایف نے قرض کی قسط ادا کردی ہے جبکہ پاکستان کے ریزرو بھی بڑھ گئے ہیں اور مہنگائی بھی سنگل ڈجٹ پر آ گئی ہے، شرح سود کم ہونے سے انڈسٹریز بہتر کام کر سکیں گے اور ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، گزشتہ چند ہفتوں سے اسٹاک مارکیٹ بھی مثبت جانب جا رہی ہے۔‘
محمد سہیل کا کہنا تھا کہ بینکوں سے قرض، گاڑیاں اور دیگر جو معاملات ہوتے ہیں وہ کائیبور پر منحصر ہوتے ہیں، اس سال کے آغاز میں کائیبور 23 فیصد سے زائد تھا جو کہ اب 13 فیصد پر آ گیا ہے۔
’اس کا مطلب یہ ہے کہ سال کے آغاز میں اور اب گاڑیوں یا دیگر لون کی ماہانہ قسط کی ادائیگیوں میں 10 فیصد تک کمی کی گئی ہے، سال کے آغاز میں جو قرض پر ایک لاکھ روپے سود ادا کرتا تھا وہ اب صرف 55 سے 60 ہزار روپے سود ادا کر رہا ہے۔‘
ماہر معیشت عابد سلہری نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے مہنگائی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، اسی وجہ سے شرح سود میں کمی متوقع تھی، انہوں نے کہا کہ شرح سود میں اضافہ مہنگائی کو روکنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس لیے بھی ہوتی ہے کہ لوگ ڈالر نہ خریدیں اور بینکوں میں اپنا پیسہ رکھیں۔