لاپتا افراد کا مسئلہ پارلیمنٹ نے حل کرنا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس

حکومت لاپتہ افراد کا معاملہ حتمی طور پر حل کرنا چاہتی ہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل جاوید اقبال وینس


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے لاپتہ افراد کیس میں اٹارنی جنرل، وزارت داخلہ سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کرلی ہیں۔
سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ کی جانب سے لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ان کی نظر میں لاپتا افراد کا کیس انتہائی اہم ہے، ہزاروں لوگ لاپتا ہیں، اس مسئلہ کا حل پارلیمنٹ نے تلاش کرنا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل جاوید اقبال وینس نے عدالت کو بتایا کہ حکومت لاپتہ افراد کا معاملہ حتمی طور پر حل کرنا چاہتی ہے، گزشتہ روز کابینہ اجلاس میں لاپتا افراد کے معاملے پر بحث کے بعد نے ذیلی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ لاپتا افراد کا مسئلہ بیان بازی سے حل نہیں ہوگا، جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ کیا کوئی لاپتا افراد کمیشن کے پاس ڈیٹا ہے کس نے افراد کو لاپتا کیا، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ لاپتہ افراد واپس آنے پر کچھ نہیں بتاتے، کہتے ہیں شمالی علاقہ آرام کے لیے گئے تھے۔
اس موقع پر جب لطیف کھوسہ نے کہا کہا ملک ڈیپ اسٹیٹ بن گیا ہے تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے انہیں سیاسی گفتگو سے روکتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر مسئلہ کو حل کریں۔
جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ لاپتہ افراد سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ ہے، اس معاملے کو بھی 26ویں ترمیم کی طرح حل کیا جائے گا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم بھی اپنے وقت پر دیکھی جائے گی، قوم اور عدالت آپ پارلیمنٹرین کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اس موقع پر اعتزاز احسن بولے؛ پارلیمنٹ کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں، عدالتی استفسار پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اٹھایا گیا ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے دریافت کیا کہ انہوں نے آکر بتایا کہ انھیں کون اٹھا کر لے گیا تھا۔
اس موقع پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جو اٹھائے گئے ان کو بچوں کو بھی اٹھا لیا جائے گا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ لوگوں کے 10 سال سے پیارے لاپتا ہیں، اس ضمن میں عدالت کا گزشتہ سماعت کا حکمنامہ بینچ کو نہیں مل رہا۔
جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی بولے؛ لاپتا افراد کے کیس میں عدالت کا آرڈر بھی مسنگ ہوگیا، جسٹس نعیم افغان نے بتایا کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کے ایک کلاسک مقدمہ میں 25 وکیل پیش ہوئے، بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم پر لاپتا افراد گھر آگئے۔
جسٹس نعیم افغان کے مطابق عدالت نے واپس آنے والے افراد کو پیش ہونے کا حکم دیا لیکن بازیابی کے بعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کیلئے پیش نہیں ہوئے، بازیاب افراد کے بیان ریکارڈ کرنے کا مقصد تھا اگر فوج ملوث ہے تو کورٹ مارشل کے لیے جی ایچ کیو کو لکھا جائے۔
جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی دوسرا ادارہ ملوث ہے تو ان کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کا حکم دیا جائے، لاپتا افراد کے کسی مقدمہ کو مثال بنانا ہے تو اپنے اندر جرات پیدا کریں، واپس آنے والوں میں کوئی تو کھڑا ہو، لاپتا افراد کے کچھ کیسز افراد ریاست کو برباد اور بدنام بھی کرتے ہیں، لاپتا افراد کے نام پر آزادی کی جنگ بھی چل رہی ہے، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔
فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے یقین دہانی کے بعد 350 افراد لاپتا ہوگئے، اسٹیٹ آفیشل گزشتہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کر رہے ہیں، اعتزاز احسن بولے؛ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کوئی شہری لاپتہ نہیں ہوگا۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ وہ لاپتا افراد کیس میں حل کیطرف جانا چاہتے ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ لاپتا افراد کا حل یہ ہے اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں کہ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے، پارلیمنٹ خود کو سپریم ثابت کرے، اعتزاز احسن نے موقف اختیار کیا کہ جو لاپتا افراد اینکر کے گھروں سے بر آمد ہوئے انہیں عدالت طلب کیا جائے، جس پر جسٹس امین الدین خان بولے؛ ہم انہیں بھی بلائیں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ آپ اپنے آپ کو مضبوط کریں تو کون اٹھائے گا، جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ جو لاپتا ہوا اس سے پوچھیں کتنا تشدد ہوا، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ کھوسہ صاحب آپ سے ریکارڈ سے پوچھیں گے کہ آپ نے لاپتہ افراد پر پارلیمنٹ میں کتنی تقرریں کیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے لاپتا افراد کیس کی سماعت آئندہ ہفتہ تک ملتوی کردی۔