شہادتوں کا معیار جنرل فیض حمید کی قسمت کا فیصلہ کرےگا، کرنل انعام الرحیم


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی مبینہ خلاف ورزیوں پر کیا جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو سزا سنائی جا سکتی ہے؟، اس حوالے سے قانونی ماہرین نے مثالوں سے واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی قسمت کا فیصلہ ان کے خلاف پائی جانے والی شہادتوں اور ثبوتوں کے معیار پر کیا جائے گا۔
قانونی ماہرین نے مثال پیش کی ہے کہ 24 نومبر 2019 کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر پاکستان آرمی کے سابق بریگیڈیئر راجہ رضوان کو پھانسی دی گئی تھی جبکہ لیفٹیننٹ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید پر بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
قانونی ماہرین نے مثال کے طور پر بیان کیا ہے کہ 30 نومبر 2019 کو ایک اور آرمی آفیسر لیفٹیننٹ جنرل( ریٹائرڈ) جاوید اقبال کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی لیکن موجودہ فوجی قیادت نے ان کے مقدمے کا ازسرنو جائزہ لے کر ان کی سزا معاف کی اور 29 دسمبر 2023 کو وہ اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے۔
لیفٹیننٹ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کے مقدمے میں ہمیں ان دونوں مقدمات کو سامنے رکھنا پڑے گا جبکہ کرنل ( ریٹائرڈ) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس سارے مقدمے کی بنیاد اس چیز پر ہے کہ استغاثہ کس معیار کی شہادتیں پیش کرتا ہے۔
واضح رہے کہ اس سال 12 اگست کو گرفتاری کے بعد جنرل( ریٹائرڈ) فیض حمید کا کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور منگل کو ان پر باقاعدہ فردجرم عائد کر دی گئی۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے وی نیوز سے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ کورٹ مارشل کاروائی مختصر وقت میں ختم ہو جاتی ہے لیکن اس بار شاید وہ زیادہ وقت لے کیونکہ فوجی حکام نے اس بار جلدبازی کی بجائے بہت احتیاط کے ساتھ مقدمہ تیار کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ لیفٹیننٹ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں اور وہ زیر علاج ہیں، اس لیے فوجی حکام کو ان کی صحت کے معاملات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑے گا۔
جنرل( ریٹائرڈ) فیض حمید کیا اس مقدمے میں سزا پا سکتے ہیں, اس سوال کے جواب میں کرنل انعام الرحیم نے کہا کہ اس بات کا سارا انحصار استغاثہ کی جانب سے پیش کی جانے والی شہادتوں پر ہے۔
کرنل انعام الرحیم ایڈوکیٹ کیا کہتے ہیں؟
فوج کے جج ایڈوکیٹ جنرل (جے اے جی) برانچ سے ریٹائرڈ ہونے والے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملٹری ٹرائلز سے متعلق متعدد مقدمات میں وکالت کرنے والے کرنل انعام نے وی نیوز سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز(آئی ایس پی آر) کی پریس ریلیز میں بالکل واضح ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر کن الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اور فوجی حکام نے ان کے قبضے سے کچھ ریکارڈ برآمد کیے ہیں، جن میں سے کچھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد محفوظ نہیں رکھ سکے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے آرمی ایکٹ اور سرکاری خفیہ ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزی کی ہے۔
کرنل انعام نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر ملک میں بدامنی پھیلانے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور یہ 9 مئی 2023 کے واقعات تک ہی محدود نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی فسادات کے دوران لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا احتجاج اور بدامنی پھیلانے سے متعلق واقعات میں ملوث ہونا پایا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں دیگر متعدد واقعات بھی رونما ہوئے ہیں، اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید سے سیاسی مفادات کے لیے سیاسی جماعت کے ساتھ ملی بھگت میں ملوث ہونے کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
کرنل انعام نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے 5 سال بعد تک ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوسکتا لیکن اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ مبینہ ملزم لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے سیاست میں ملوث ہونے کا نیا طریقہ کار بھی سامنے آیا ہے، وہ اپنے سیاسی رابطوں کے لیے اور انہیں ہدایات دینے کے لیے ہر دفعہ ایک نیا سم کارڈ بھی خریدتے اور استعمال کرتے رہے ہیں۔
فوجی عدالت کی تشکیل
کرنل انعام نے بتایا کہ فوجی عدالت ایک لیفٹیننٹ جنرل کے ذریعہ قائم کی جاتی ہے جبکہ ایک میجر جنرل عدالت کی صدارت کرتا ہے۔ ’ایف جی سی ایم پینل‘ کم از کم 3 لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی تعداد کو بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔ پریزائیڈنگ میجر جنرل کے علاوہ ایک اور میجر جنرل اور ’جے اے جی ‘ برانچ کا ایک جج بھی پینل میں بیٹھتا ہے جو قابل اطلاق قوانین کی روشنی میں ثبوت اور شوائد کی صداقت اور معیار کو پرکھتا ہے۔
فوجی عدالت کیسے کام کرتی ہے؟
کرنل انعام نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایک فوجی عدالت ایک عام عدالت کی طرح ہی کام کرتی ہے، الزامات طے ہونے کے بعد ملزم کو آئین کے آرٹیکل 10 اے (منصفانہ ٹرائل کا حق) کے تحت اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد استغاثہ اپنے ثبوت اور اپنے گواہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد ملزم کے وکیل استغاثہ کے ان گواہوں سے جرح کر سکتے ہیں، اس کے بعد ملزم کو اپنے حق میں دفاعی گواہ پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
کرنل انعام نے بتابا کہ اس کے بعد کیس ختم ہو جائے گا اور ایف جی سی ایم کی جانب سے ملزم سے پوچھ گچھ کی جائے گی کہ آیا اس نے جرم قبول کیا ہے یا نہیں؟ اور پھر سزا کا اعلان کیا جائے گا۔
ایڈوکیٹ عمران شفیق کیا کہتے ہیں؟
ایڈوکیٹ عمران شفیق جو فوجی ٹرائلز بھی کر چکے ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ باقاعدہ عدالتی کارروائی اور فوجی عدالت کی کارروائی میں فرق صرف اتنا ہے کہ فوجی عدالت اس فیصلے کی وجوہات نہیں بتاتی، ایف جی سی ایم کے فیصلے کو فوج کی اپیلٹ کورٹ میں چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار جب کوئی ملزم اپیلٹ کورٹ کا موقع ضائع کر دیتا ہے تو وہ ایف بی علی اور ظہیر الاسلام عباسی کے مقدمات کی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے بیان کردہ 3 وجوہات کی بنا پر صوبائی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جن 3 وجوہات کے تحت ایف جی سی ایم کے فیصلے کو ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے، ان میں یہ شامل ہے کہ آیا ایف جی سی ایم بدنیتی پر مبنی تھا، کورم غیر عدالتی تھا یا دائرہ اختیار سے باہر تھا، اگر کوئی ہائی کورٹ اپیل کو تسلی بخش سمجھتا ہے تو پھر اپیل ہائیکورٹ کے سامنے قابل قبول ہوسکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *