احتساب کا نعرہ لےکراقتدارمیں آنے والی پی ٹی آئی حکومت اپنے دعوے پر کتنا عمل کرپائی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خیبر پختونخوا میں مسلسل تیسرے دور اقتدار میں بھی فرسودہ قانون کے استعمال کے نتیجے میں 99 فیصد افراد کو بری کیا گیا جس سے عمران خان کے کڑے احتساب کا دعویٰ ممکن نہیں ہو سکا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 90 کی دہائی کے اواخر میں اپنے قیام کے بعد سے ہی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک ملک کے لیے اپنے حامیوں میں امید جگائے رکھی ہے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی جماعت کی بنیاد احتساب کے سخت معیارات پر ہی رکھی گئی ہے جس کا اطلاق تمام شہریوں پر یکساں طور پر ہوگا، چاہے وہ کتنے ہی طاقتور اور بااثر کیوں نہ ہوں۔
خوش قسمتی سے پی ٹی آئی نے 2013 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی پہلی حکومت تشکیل دی، جہاں تک کرپشن کے خاتمے کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی کی نوزائیدہ حکومت خوش قسمت اس لیے نہیں رہی کیونکہ اسے صدر محمد ایوب خان کے دور حکومت میں نافذ کیا گیا اینٹی کرپشن قانون وراثت میں ملا ، جس میں وہ آج تک کوئی ترمیم نہیں لا سکے۔
یہ فرسودہ قانون مغربی پاکستان اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس 1961 آج سے 63 سال قبل نافذ العمل ہوا تھا اور اب تک بری طرح ناکام رہا ہے کیونکہ 99 فیصد سے زیادہ ملزمان اس قانون کے تحت آسانی سے بری ہو چکے ہیں۔
پارٹی کی پہلی مدت کے دوران 2013 میں منظور کیا گیا خیبر پختونخوا احتساب کمیشن ایکٹ 2018 میں منسوخ کر دیا گیا تھا
موجودہ قانون کی عدم موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک نیا قانون متعارف کرایا جس کا نام خیبر پختونخوا احتساب کمیشن ایکٹ 2013 تھا۔ اس قانون کے تحت احتساب کمیشن قائم کیا گیا جس میں ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل حامد خان کو اس کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔
تاہم جنرل (ر) حامد خان اور اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے درمیان اختلافات کی وجہ سے اس قانون میں ترامیم کی گئیں جس سے کمیشن غیر مؤثر ہوگیا۔ اس قانون میں 2015 میں ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت ڈائریکٹر جنرل سے اختیارات چھین لیے گئے تھے اور انہیں مختلف بورڈز کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ مزید برآں سرکاری افسران کے خلاف انکوائری شروع کرنے سے قبل چیف سیکریٹری سے اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا تھا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی 2019 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ احتساب کمیشن نے غبن کی گئی رقم کی ایک پیسے کی وصولی کے بغیر ہی قومی خزانے پر 1.03 روپے خرچ کیے۔
بالآخر 2018 میں محمود خان کی قیادت والی حکومت نے خیبر پختونخوا احتساب کمیشن ایکٹ کو منسوخ کر دیا۔
2019میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق احتساب کمیشن نے قومی خزانے کو 1.03 ارب روپے کا نقصان پہنچایا اور غبن کی گئی رقم کی ایک پیسہ بھی وصولی نہیں کی۔
اس وقت پی ٹی آئی کے پاس صوبائی مقننہ میں 3 چوتھائی اکثریت ہے لیکن اس مضبوط مینڈیٹ کے باوجود صوبہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس 1961 کے تحت ہی کام کر رہا ہے۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) کے ڈائریکٹر صادق انجم کا کہنا ہے کہ ‘اس آرڈیننس کے نفاذ سے لے کر آج تک اس میں کوئی معنی خیز تبدیلی نہیں کی گئی‘۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی کارکردگی
وی نیوز کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو 2024 میں بدعنوانی کی 1352 شکایات موصول ہوئیں۔ جبکہ پچھلے سالوں کے 2،498 مقدمات پہلے ہی زیر التوا ہیں، جس کے بعد مجموعی تعداد 3،850 ہوگئی ہے۔
رواں سال کے دوران 1380 شکایات نمٹا دی گئیں۔ ان شکایات کو ابتدائی مرحلے میں یا تو میرٹ کی کمی کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا یا دائرہ اختیار کے معاملے پر نمٹا دیا گیا، یا کچھ معاملات میں افراد یا ملزمان نے خورد برد کی گئی رقم جمع کرانے کو ترجیح دی۔
رپورٹ کے مطابق اسی طرح 520 نئی انکوائریاں شروع کی گئیں جن میں سے 365 انکوائریاں مکمل ہوئیں۔ 2024 کے اختتام تک مجموعی طور پر 2077 انکوائریاں زیر التوا تھیں جبکہ حل طلب شکایات کی تعداد 2470 تھی۔
محکمہ نے صرف 38نئے مقدمات درج کیے اور بدعنوانی کے کل 83 مقدمات زیر التوا ہیں۔ سال بھر میں 38 فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کروائی گئیں اور 87 افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن انسدادِ بدعنوانی کی خصوصی عدالتوں میں صرف2 افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔ سزاؤں کی کم شرح کی بنیادی وجہ افرادی قوت کی کمی اور مالی رکاوٹیں ہیں۔
مختص احتسابی بجٹ کا 99.25 فیصد تنخواہوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے
صادق انجم نے وی نیوز کو بتایا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے پاس کل 397 افراد پر مشتمل افرادی قوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے لیے محکمہ کا مجموعی بجٹ 400 ملین روپے سے زیادہ ہے۔ جس میں سے 386.5 ملین روپے (99.25 فیصد) ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں چلے جاتے ہیں۔ آپریشنل ڈیوٹیز، لاجسٹکس اور یوٹیلیٹی بلز کے لیے محکمہ کے پاس صرف ایک کروڑ 39 لاکھ دستیاب ہیں۔
احتساب کے لیے درپیش چیلنجز
حیران کن طور پر کمیشن کو گریڈ 19 یا اس سے اوپر کے افسران کی تحقیقات یا گرفتاری کے لیے چیف سیکریٹری سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ صادق انجم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر گریڈ 18 تک کے کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف مقدمہ درج کرا سکتے ہیں۔ تاہم گریڈ 19 اور اس سے اوپر کے افسران کے لیے چیف سیکریٹری سے منظوری لینا ضروری ہے‘۔
اسی طرح انکوائری مکمل کرنے کے بعد ڈائریکٹر گریڈ 16 تک کے افسران کو گرفتار کر سکتا ہے۔ گریڈ 17 یا اس سے اوپر کے افسران کی گرفتاری کے لیے چیف سیکریٹری کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
قواعد اعلیٰ عہدیداروں کو کسی بھی جانچ پڑتال کے دائرے میں لانے میں بیوروکریٹک رکاوٹوں کا تعین کرتے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ احتساب کے لیے قانون میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ اگر خود چیف سکریٹری کے خلاف ٹھوس شکایت درج کی جاتی ہے تو ان کے خلاف کس کی اجازت کے ساتھ کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟۔
وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انسداد بدعنوانی مصدق عباسی واضح طور پر سزا کی کم شرح (جو ایک فیصد سے بھی کم ہے) کو قانون کی خامیوں اور مناسب عملے اور عدالتوں کی کمی سے جوڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پورے صوبے میں صرف 2 خصوصی انسداد بدعنوانی عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ ہر ضلع میں ایک سرکل آفیسر ہوتا ہے جو ضلع کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو رپورٹ کرتا ہے اور ایک ڈویژنل سطح کا تفتیشی افسر وسیع تر تحقیقات کی نگرانی کرتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر برائے ٹیکنیکل افیئرز محمد حسیب بھی محکمے کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے عملے کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپریشنل افسران سمیت زیادہ تر عملہ محکمہ پولیس سے ڈیپوٹیشن پر آتاہے جبکہ قانونی مقدمات اینٹی کرپشن پراسیکیوٹرز کے بجائے محکمہ قانون کے جنرل پراسیکیوٹرز سنبھالتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دسمبر 2024 میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی لئیق خان نے الزام عائد کیا کہ 3 ماہ قبل ان کے آبائی ضلع تورغر میں 3 ارب روپے کے کرپشن اسکینڈل کی اطلاع اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو دی گئی تھی۔ ’لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے‘۔
انہوں نے ضلع کے سرکل انسپکٹر پر الزام عائد کیا کہ وہ باقاعدگی سے سرکاری عہدیداروں کو اس طرح بلاتے ہیں جیسے وہ ان کے ماتحت ہوں‘۔ ’وہ ان کی تذلیل کرتے ہیں اور ماہانہ بھتہ خوری میں ملوث ہیں‘۔
مجوزہ اصلاحات
مصدق عباسی نے تسلیم کیا کہ پولیس اہلکاروں پر انحصار سے نااہلیت جنم لیتی ہے، کیونکہ پولیسنگ اور انسداد بدعنوانی کے لیے مختلف مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سزا کے رہنما اصولوں کو بہتر بنانے، انسداد بدعنوانی کے لیے ایک خاطرخواہ افرادی قوت اور کیس پروسیسنگ کو بڑھانے کے لیے نئی قانون سازی متعارف کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان اصلاحات کو نافذ کرنے میں ایک سے ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے۔
مزید برآں یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر زیادہ تر محکمہ پولیس اور بعض اوقات بیوروکریسی سے آتے ہیں، جو عام طور پر 18 گریڈ کا افسر ہوتا ہے۔
کوئی ان سے یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ پولیس افسروں یا بیوروکریٹس خاص طور پر جو ان سے سینیئر ہوں، کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے، کیوں کہ انہیں آخر کار اپنے محکمے میں واپس آنے کے بعد دوبارہ ان کے ماتحت کام جو کرنا پڑ سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *