برڈ فلو نے تباہی مچادی، 30 کروڑ پرندے ہلاک، چوپائے بھی متاثر
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) میں جانوروں کی بیماریوں کی روک تھام کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر مادھور ڈھنگرا نے کہا ہے کہ برڈ فلو کا سبب بننے والا ’ایچ 5 این ون‘ وائرس (ایویئن وائرس) اب جنگلی حیات میں بھی پھیلنے لگا ہے۔
پرندوں کی 500 سے زیادہ اقسام متاثر
اب تک پرندوں کی 500 سے زیادہ اقسام اس وائرس کا نشانہ بن چکی ہیں جبکہ 70 انواع کے ممالیہ جانوروں میں بھی یہ بیماری نمودار ہو چکی ہے۔
ان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار کیلی فورنیا کے گدھ اور برفانی ریچھ بھی شامل ہیں۔جن علاقوں میں مرغیاں پروٹین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں وہاں اس وائرس سے خوراک اور غذائی تحفظ کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
معاشی نقصان
ڈاکٹر ڈھنگرا نے خبردار کیا ہے کہ اس وائرس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے۔ یہ بیماری کسانوں کے لیے بہت بڑا معاشی بوجھ ہے جو انہیں حیاتیاتی تحفظ کے حوالے سے خاطرخواہ اقدامات پر سرمایہ کاری سے روک سکتی ہے۔
دودھ دینے والے مویشیوں میں یہ وائرس سامنے آںے کے بعد ’ڈبلیو ایچ او‘ نے کھیتوں اور جانوروں کے باڑوں میں نگرانی اور حیاتیاتی تحفظ کے اقدامات سخت کرنے کو کہا ہے تاکہ جانور اور انسان اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔
ادارے نے بتایا ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں 76 افراد برڈ فلو کی ایچ 5 قِسم سے متاثر ہوئے جن کی بڑی تعداد محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
امریکا میں ایسے 60 سے زیادہ مریض سامنے آئے جہاں جنگلی حیات، مرغیوں اور اب دودھ دینے والے مویشیوں میں بھی وائرس کی یہ قِسم پائی گئی ہے۔
اس کے علاوہ حالیہ عرصہ میں آسٹریلیا، کینیڈا، چین، کمبوڈیا اور ویت نام میں بھی لوگ، پرندے اور مویشی برڈ فلو سے متاثر ہوئے ہیں۔
جو لوگ کھیتوں یا مویشیوں کے باڑوں میں کام کرتے ہیں انہیں متاثرہ جانوروں سے قربت کے باعث اس بیماری کا کم سے معتدل درجے تک خطرہ لاحق ہو گا۔
انسانوں کے لیے ’محدود خطرہ‘
’ڈبلیو ایچ او‘ میں چھوٹی بڑی وباؤں کے خطرات سے نمٹنے کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریا وان کیرخوو نے کہا ہے کہ جدید سائنس کی رو سے جو لوگ پرندوں اور مویشیوں کے قریب نہیں رہتے انہیں یہ مرض لاحق ہونے کا خدشہ بہت کم ہوتا ہے۔
جو لوگ کھیتوں یا مویشیوں کے باڑوں میں کام کرتے ہیں انہیں متاثرہ جانوروں سے قربت کے باعث اس بیماری کا کم سے معتدل درجے تک خطرہ لاحق ہو گا اور اس کا دارومدار ان کے حفاظتی سازوسامان پر بھی ہوتا ہے۔
اب تک ایسی کوئی سائنسی شہادت موصول نہیں ہوئی کہ یہ وائرس ایک سے دوسرے انسان کو بھی لاحق ہو سکتا ہے اور نہ ہی اب تک ایسا کوئی مریض سامنے آیا ہے جسے کسی دوسرے فرد سے یہ بیماری لاحق ہوئی ہو۔
’لاپروائی کی گنجائش نہیں‘
ڈاکٹر کیرخوو کا کہنا ہے کہ یہ وائرس خود کو تبدیل کر رہا ہے اور کبھی اس کی انسان سے انسان کو منتقلی بھی ممکن ہے۔ اسی لیے جب بھی کسی فرد کو برڈ فلو لاحق ہو تو اس بات کی مفصل تحقیق ہونی چاہیے کہ اس کے جسم میں یہ وائرس کہاں سے پہنچا، متاثرہ فرد کتنے لوگوں سے رابطے میں رہا اور آیا ان میں بھی اس بیماری کی کوئی علامات پائی گئی ہیں یا نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے تحفظ کے لیے جراثیموں سے پاک (پاسچرائزڈ) دودھ پینا ضروری ہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو دودھ کو استعمال سے قبل ابال لیا جائے۔
ڈاکٹر کیرخوو کے مطابق برڈ فلو پر مؤثر طور سے قابو پانے کے لیے عالمی، قومی اور نچلی سطح پر بیک وقت انسانوں، جانوروں، پودوں اور ماحول کو صحت مند رکھنے کے طریقہ کار سے کام لینا ہوگا۔