معاشی ترقی: کیا پاکستان کو آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کا سفر شروع ہے اور وقت آنے پر ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو خَیرباد کہہ دیں گے اس کے لیے ہمیں ترجیحی گرؤتھ کی طرف بڑھنا ہے، شرع سود کو مزید کم کرنا ہے، قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانا ہے اور مختلف انڈسٹریاں لگا کر روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں۔
2 سال قبل معاشی ماہرین اور سیاسی رہنما کہہ رہے تھے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرات لاحق ہیں، بعد ازاں ’آئی ایم ایف‘ کے پروگرام میں شامل ہونے اور قرض کی قسط ملنے کے بعد معیشت میں کچھ بہتری آئی اور معاشی اشاریے بھی بہتر ہوئے، روپے کی قدر ایک سال سے مستحکم ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ووزیراعظم شہباز شریف کے اس بیان پر معاشی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان کو مستقل میں ’آئی ایم ایف‘ سے نجات مل سکتی ہے۔
معاشی تجزیہ کار شہباز رانا نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ نہیں کہا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہے، تو اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ آخری پروگرام نہیں ہے اور مستقبل میں بھی پروگرام جاری رہیں گے۔
’آئی ایم ایف‘ پروگرام اور اس کی شرائط وغیرہ میں کچھ ایسی خامیاں ہیں کہ آئندہ 3 سالوں میں اس پروگرام کو بھی پورا نہیں کیا جا سکے گا اور نیا پروگرام لینا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ وقت آنے پر ’آئی ایم ایف‘ کو خیرباد کہہ دیں گے تو وقت آنے کا مطلب ہے کہ ابھی وقت نہیں ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کے پروگرام کو چھوڑا جائے۔
شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ پروگرام سے نجات ایک ہی طریقے سے مل سکتی ہے کہ جن شرائط پر پاکستان عمل درآمد نہیں کر پا رہا ان پر آئی ایم ایف جھوٹ دے دے، اس صورتحال میں وزیراعظم کا بیان کافی معنی خیز ہے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ آخری پروگرام ہوگا انہوں نے یہ کہا کہ جب وقت آئے گا تو ’آئی ایم ایف‘ کو خیر بادکہہ دیں گے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تو پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کو خیرباد کہنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے، اس کے لیے پاکستان کو اگلے 2 سے 3 سالوں میں بنیادی اصلاحات کرنی ہوں گی، بنیادی اصلاحات کو ماضی میں کبھی ضروری ٹارگٹ نہیں رکھا گیا ہے۔
اداروں کی نجکاری، ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، زراعت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اور لوگوں کو اچھا روزگار فراہم کرنا ضروری ہے، اگر یہ سب کام ہوتے ہوئے دکھائی دیں تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ 3 سال بعد ملکی معیشت سنبھل جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ پھر آئی ایم ایف پروگرام کی بھی ضرورت نہ پڑے۔
ماہر معیشت راجہ کامران نے کہا کہ پاکستان کی آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات انتہائی کم ہیں جبکہ درآمدات بہت زیادہ ہیں، اس وقت پاکستان آئی ٹی ایکسپورٹ، ہیومن ریسورس ایکسپورٹ سے زیادہ کمائی کرتا ہے، جبکہ کھانے پینے سمیت بہت سی اشیا امپورٹ کی جاتی ہیں، اس لیے اس وقت تو آئی ایم ایف کو خیرباد کہنا ممکن نہیں تاہم اگر پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ترقی کرتا ہے اور پاکستان میں گاڑیاں بنائی جا رہی ہیں ان کی ایکسپورٹ شروع کر دی جائے اور امپورٹ کم سے کم کر دی جائے ایکسپورٹ زیادہ سے زیادہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ 5 سال کے بعد آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا جائے لیکن فی الوقت ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔