کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا سولہ آنے کا 


مطیع اللہ مطیع

بلوچستان سیاسی نعروں کے لحاظ سے ایک پسماندہ و غریب صوبہ ہے لیکن وسائل کے لحاظ سے امیر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یہ صوبہ رقبے کے لحاظ سے وسیع جبکہ آبادی کے لحاظ چھوٹا صوبہ ہے حال ہی میں محکمہ صحت کی اندرونی چپقلش نے صحت کے شعبے کو مزید مسائل سے دو چار کیا ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے چند مطالبات صحت کے حکام بالا کو پیش کئے تاہم ان کو تسلیم کرنے میں تاخیر نے ڈاکٹرز کو احتجاج کی طرف دھکیل دیا جن مطالبات کو ینگ ڈاکٹرز نے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل کیا تھا ان میں چند ذاتی تو چند اجتماعی نوعیت کے تھے معاملہ حل ہونے کی بجائے عدالت چلا گیا وہاں جج صاحبان نے معاملے کو سنا اور حکم صادر کیا کہ ینگ ڈاکٹرز ہڑتال ختم کرے اور محکمہ صحت کے حکام مطالبات تسلیم کرے بدقسمتی سے صوبائی وزیر صحت، سیکرٹری صحت نے سول ہسپتال کا دورہ کیا جہاں ڈی جی ہیلتھ بھی پہنچ گئے وہاں مطالبات حل ہونے کی بجائے معاملے نے طول پکڑ لیا ڈاکٹرز گرفتار ہو گئے اور ینگ ڈاکٹرز نہ صرف بلوچستان بلکہ ملگیر سطح پر احتجاج پر چلے گئے سیکرٹری صحت نے احتجاج میں ملوث ڈاکٹرز کو شو کاز نوٹسز جاری کئے چند ایک اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کو وضاحتی مراسلے بھیجے گئے تاہم اس تمام تر صورت حال میں عدالتی چھٹیاں چل رہی تھی جو اب بھی جاری ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کی قیادت نے عدالت کے ذریعے رہائی پائی تو انہیں 3 ایم پی او کے تحت نظر بند کر دیا گیا۔ اس تمام تر لڑائی میں وزیر صحت موصوف سوشل میڈیا کے ذریعے انٹرویوز دیتے ہوئے نظر آئے۔ یہاں یہ نقطہ قابل ذکر ہے کہ باتیں سوشل میڈیا پر کی جاتی ہے جبکہ گلے شکوے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے کئے جاتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز و حکومت بلوچستان دونوں کی جانب سے مذاکرات کامیاب ہونے کے اعلانات کئے گئے لیکن وہ امور عوام کی نظروں سے اوجھل ہے جن کو بنیاد بنا کر احتجاج کیا گیا یا بعد میں ان پر مذاکرات کئے گئے تاہم بعد کی صورتحال پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے علاؤہ وزیر صحت کے چہتے سوشل میڈیا پر بھی خاموشی چھائی ہوئی ہے البتہ بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق عمل درآمد کے اعلانات ضرور ہوئے۔ اس تمام تر صورت حال کے دوران محکمہ صحت کی جانب سے سول ہسپتال و بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کیلئے پروکیورمنٹ کی خریداری کیلئے کمیٹی تشکیل دی تھی کمیٹی ایک قدم آگے بڑھی تو ناگزیر وجوہات کی بنا پر بائیو میڈیکل انجینئر نے اپنی پوزیشن سے استعفیٰ دے دیا جس سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ پروکیورمنٹ 3 ارب روپے سے زائد کی ہیں بائیو میڈیکل انجینئر کی استعفیٰ سے معاملہ لٹک گیا۔ محکمہ صحت میں اصلاحات و طبی سہولیات کی فراہمی صرف نوٹیفکیشنز و اعلانات اور دوروں تک نظر آرہا ہے حقیقت میں ادویات، مشینری کی خریداری، ٹرانسفر پوسٹنگ آج بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہو رہے ہیں جبکہ رہی سہی کسر سابقین پر ڈال دیا جاتا ہے تو پھر اعلانات، احتجاج کو دیکھتے ہوئے یہی کہہ سکتے ہیں کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس تھوڑا سولہ آنے کا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *