افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان میں مشکلات کیوں بڑھ گئیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی جانب سے پناہ گزینوں کی دوبارہ امریکا میں آبادکاری کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس وقت افغان باشندے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ اب پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو 3 مراحل میں ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ پہلا مرحلے میں غیر دستاویزی مہاجرین شامل ہوں گے، دوسرے میں اے سی سی کارڈ رکھنے والے افغان شہری جبکہ تیسرے مرحلے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے مہاجرین شامل ہوں گے۔ پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان معاشی اعتبار سے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
لیکن اس حوالے سے افغان مہاجرین کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے 31 مارچ تک کی مہلت دی گئی ہے اور وہ توقع کر رہے ہیں کہ اس وقت تک امریکا کی طرف سے ان کے لیے کوئی مثبت جواب سامنے آجائے گا۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے سے اسے عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
افغان باشندوں کی مشکلات اور دیگر امور پر گہری نظر رکھنے والی صحافی شمیم شاہد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک امریکا نے افغانستان کے بارے میں خصوصی طور پر کسی خاص پالیسی کو واضح نہیں کیا ہے البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد غیر قانونی طور پر یا سرحدی گزرگاہوں سے آنے والوں کو اپنے اپنے وطن واپس بھجوانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
شمیم شاہد نے کہا کہ اس اعلان پر کسی نہ کسی حد تک عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے لیکن افغانستان سے امریکا پہنچنے والے زیادہ تر افغان باشندے قانونی طریقوں سے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی حکومت کو عالمی سطح پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی اصل وجہ طالبان کے افغان عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور معاشی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف طالبان سیاسی انتقام کے تحت مخالفین کو گرفتار کررہے ہیں اور بہت سوں کو جبری طور پر گمشدہ کرکے ماورائے قانون قتل بھی کرچکے ہیں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس بار حکومت پاکستان نے 31 مارچ تک افغان باشندوں کو نکلنے کا کہہ دیا ہے مگر ان کی پکڑ دھکڑ ابھی سے ہی جاری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں روزانہ افغان باشندوں بشمول خواتین اور بچوں کو گرفتار کرکے تھانوں اور جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے اور ان کو بعد میں طورخم کے راستے زبردستی افغانستان بجھوایا جا رہا ہے۔
شمیم شاہد نے کہا کہ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ پاکستانی اداروں کے پاس وسائل نہیں ہیں اور گرفتار لوگوں کو کئی کئی دنوں تک قید میں رکھا جاتا ہے اور ان کو کھانے پینے کی اشیا بھاری رقوم بلکہ بھاری رشوت کی ادائیگی پرفراہم کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنی بے عزتی پاکستان میں افغان باشندوں کی ہو رہی ہے وہ کسی اور ملک میں نہیں ہو رہی اور پاکستان کے اس ہتک آمیز رویے کی وجہ سے ہی افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے نفرت پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے لہٰذا افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے پر اس پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین یورپی یونین اور دیگر انسانی حقوق کی تحفظ کی تنظیمیں تو پہلے سے ہی پاکستان کے اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہیں۔
شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان کے موجودہ حالات پر زیادہ دیر تک خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا کیوں کہ اس کے اس خطے میںاب بھی بہت سے مفادات ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکا افغانستان سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔
’کشتیاں جلا کر آئے ہیں، وہاں ہمارا کچھ نہیں بچا‘
اسلام آباد میں مقیم ایک افغان شہری نے وی نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک تو امریکی امیگریشن پالیسی میں افغان مہاجرین کے حوالے سے کچھ نرمی نظر نہیں آئی ہے لیکن امیدیں اب بھی قائم ہیں کیونکہ امریکا میں امیگرنٹ حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور کانگریس کے اراکین اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جس پر ہم پرامید ہیں کہ افغان مہاجرین کی مشکلات کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے امریکا جانے کا ارادہ رکھنے والے افغان پناہ گزین کو اس وقت واحد پریشانی یہ لاحق ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے بس یہ نوبت نہ آئے کہ انہیں دوبارہ افغانستان جانا پڑے کیونکہ اب افغانستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنی تمام کشتیاں جلا کر اس راستے پر نکلے تھے، افغانستان میں اب ان کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔
افغان شہری نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے دی گئی 31 مارچ کی ڈیڈلائن سے پہلے امریکا کی جانب سے کوئی اچھی خبر ضرور ملے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الحال پولیس کی جانب سے انہیں کسی قسم کی کوئی بھی پریشانی نہیں پہنچی ہے مگر بہت سے لوگ مشکلات کے باعث اسلام آباد سے پشاور کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہ خود کو وہاں محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
’خواتین افغانستان میں گھٹ گھٹ کر مرجائیں گی‘
ہگئی احمد ذئی اس وقت پشاور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکومت کی ان خبروں کے بعد ان کا دل مزید مایوس ہو چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب ہم کہاں جائیں گے اس حوالے سے انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب بھی کہیں نہ کہیں امریکا سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ امریکا افغان پناہ گزینوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان واپس جانا ہمارے لیے اب نا ممکن ہے کیونکہ وہاں خواتین گھٹ گھٹ کر مر جائیں گی۔
ہمیں کم از کم امریکا کی جانب سے حتمی فیصلے تک تو مہلت ملنی چاہیے کیونکہ امریکا روانگی کے حوالے سے ہمارے تمام تر معاملات آخری مراحل میں تھے۔
واضح رہے کہ پاکستان کا افغان مہاجرین کو 31 مارچ 2025 تک پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ اس کی ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے‘ کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر دستاویزی، بشمول افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا ہے۔ یہ منصوبہ اکتوبر 2023 میں سامنے آیا تھا جس میں غیر دستاویزی افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے یا جلاوطنی کا سامنا کرنے کے لیے 30 دن کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔
پاکستانی حکومت نے ان کی وجہ سے قومی سلامتی کے بارے میں خدشات ظاہر کیے ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں، بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ تنظیموں نے اپنے مؤقف کے لیے دلیل دی ہے کہ اس فیصلے نے افغان مہاجرین کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی بھی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی حکومت نے افغان مہاجرین کے لیے رجسٹریشن کے ثبوت (PoR) کارڈز کی توثیق 30 جون 2025 تک بڑھا دی ہے جس سے انہیں ایک سال تک ملک میں رہنے کی اجازت ہوگی لیکن اس توسیع کا اطلاق تمام افغان مہاجرین پر نہیں ہوتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *