سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: جج آئینی بینچ کا عمران خان سے متعلق اہم مکالمہ
آپ ایک بات کررہے ہیں، آپکے مؤکل کہتے ہیں جن کے پاس اختیارات ہیں، ان سے بات کروں گا، جسٹس مسرت ہلالی کا وکیل سے مکالمہ

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل کے ساتھ سابق وزیر اعظم سے متعلق اہم مکالمہ کیا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری کے دلائل جاری ہیں، سماعت کے آغاز پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین کے وقت ایوب خان کا دور تھا، کیا ایوب خان کے دور میں لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟
عذیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ اس وقت بھی بنیادی حقوق دستیاب نہیں تھے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا، ان کی سیکیورٹی کسی آرمی پرسنل کے کنٹرول میں ہوگی، جہاں ملٹری کی شمولیت ہو، وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی۔
عذیر بھنڈاری نے استدلال کیا کہ 103 افراد ایسے ہیں جن کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ میڈیا پر ہم نے فوٹیجز دیکھی ہیں۔
عزیر بھنڈاری نے مؤقف اختیار کیا کہ اس کیس میں عدالت نے طے کرنا ہے قانون کو کس حد تک وسعت دی جاسکتی ہے، 21ویں آئینی ترمیم کے باوجود عدالت نے قرار دیا مخصوص حالات کے سبب ترمیم لائی گئی، آرمی ایکٹ کا سویلین پر اطلاق کرنے کے لیے آئینی تحفظ دینا پڑے گا۔
عزیر بھنڈاری نے دلیل دی کہ فوجی کے حلف میں لکھا ہوتا ہے افسر کا حکم زندگی سے زیادہ ضروری ہے،جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں فوج دوران جنگ ہی جواب دے سکتی ہے، گھر پر حملے کا نہیں۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے متعلق اہم مکالمہ کیا جب کہ وکیل عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے نکلنا ہے کہ فوج ہی سب کچھ کرسکتی ہے، کور کمانڈر ہاوس پر حملہ ہوا ڈیفنڈ کیوں نہیں کیا گیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک بات کررہے ہیں، آپ کے مؤکل دوسری بات کرتے ہیں۔
دوران سماعت سابق آرمی چیف جنرل قمر باوجوہ توسیع کے جسٹس منصور شاہ کے فیصلے کا حوالہ
جسٹس مسرت ہلالی نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کا مؤکل کہتا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں، ان سے بات کروں گا، اس پر عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے مؤقف اختیار کیا کہ کمرہ عدالت سے جو باہر ہے اس پر بات نہیں کروں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ یہ سیاست کی بات نہیں، حقیقت کی بات ہے، جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی ؟ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا ؟
وکیل عزیر بھنڈاری نے استدلال کیا کہ اب معاملہ عدالت کے سامنے ہے۔
دوران سماعت سابق آرمی چیف جنرل قمر باوجوہ توسیع کے جسٹس منصور شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سلمان راجہ نے دلائل میں بھارت کا حوالہ دیا، سلمان راجہ نے کہا بھارت میں ملٹری ٹرائل کیخلاف آزادانہ ٹربیونل میں اپیل جاتی ہے، بھارت میں اپیل کا حق پارلیمنٹ نے قانون سازی کے زریعے خود دیا یا عدالتی ہدایات تھیں
عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا، اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔
’کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کے جانے دیتے تو خط کہاں سے آجاتے ہیں؟‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میں نے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق ایک فیصلے میں تجویز دی، میری تجویز پر ہائیکورٹ کے ججز کی کمیٹی بنی اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے ٹیسٹ انٹرویو شروع ہوئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا، سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کیلئے قانون سازی کی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کیلئے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، یہ تو ہماری حالت تھی۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایف بھی علی کیس میں اعتزاز احسن صاحب نے آپ کو بتایا کہ ٹرائل کیسے ہوتا تھا، فئیر ٹرائل تو دور کی بات، جیل ٹرائل میں کاغذ کا ٹکڑا تک نہیں لے جانے دیا جاتا اس پرجسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کے جانے دیتے تو خط کہاں سے آجاتے ہیں؟
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ہاں ہاں آج کل تو خطوں کا تنازع بھی چل رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ صرف بنیادی حقوق کے معاملے پر دلائل دیں۔
عزیر بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ کورٹ مارشل میں تو موت کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، نہ جج کی کوئی معیاد، نہ ٹریننگ اور نہ ہی قانونی سمجھ بوجھ ہوتی ہے، سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا جاتا، صرف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے، ہائیکورٹ میں رٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کیا جاسکتا ہے مگر وہ محدود ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی بانی پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہوگئے اور سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، کل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی دلائل شروع کریں گے۔