سپریم کورٹ ،مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستیں باضابطہ سماعت کے لیے منظور ،فریقین کو نوٹسز جاری
سماعت آج ہوگی، توہینِ عدالت کی درخواست بھی اسی کیس کے ساتھ سنی جائے گی

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ میں پھر تقسیم، نظرثانی منظور، جسٹس عقیل اور جسٹس عائشہ کا اختلاف،سماعت سے پہلے جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ اہم فیصلہ جاری، نظرثانی کی پرزور مخالفت
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں کو باضابطہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دئیے ۔ کیس کی سماعت آج (بدھ کو) دوبارہ ہوگی جبکہ توہینِ عدالت کی درخواست بھی اسی کیس کے ساتھ سنی جائے گی۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے جاری فیصلے کے مطابق، 13 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی اور بینچ کے 11 اراکین نے اکثریتی رائے سے نظرثانی درخواستوں پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دیا۔بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق، جسٹس باقر نجفی اور دیگر شامل ہیں۔اختلافی نوٹ میں دونوں معزز جج صاحبان نے مقف اختیار کیا کہ نظرثانی کی بنیاد پر فیصلہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اور معاملے میں قانونی طور پر کوئی نئی بات پیش نہیں کی گئی۔عدالت نے تمام متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے آج (بدھ)کی تاریخ مقرر کی ہے۔ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 13 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت نے روسٹرم سنبھالا اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق ہی نہیں تھی۔جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے آر او کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔وکیل حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکلا کی فوج تھی لیکن انہوں نے ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا، کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا پوری قوم کو دیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا گیا تھا، جبکہ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ نظرثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں، آپ نظرثانی کے گرانڈز نہیں بتا رہے۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟ جس پر جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ توہین عدالت کی درخواست آج لگی ہوئی ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ کیس بہت تفصیل سے سنا گیا تھا، اور پھر سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟ وکیل حارث عظمت نے کہا کہ مجھے کنفرم نہیں ہے۔ جس پر جسٹس عائشہ ملک نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے کھڑے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو کنفرم نہیں؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بھی بتانا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ہمارے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا پابند نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کے بغیر نظرثانی کیسے فائل کی جا سکتی ہے؟جسٹس عقیل عباسی نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں، اسے چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، اب آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے؟جسٹس عقیل عباسی نے مزید کہا کہ جو باتیں آپ بتا رہے ہیں ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے؟ انہوں نے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔جسٹس عقیل عباسی نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں؟ پہلے یہ بتائیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ریلیف لینے کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہاں پر سوال پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ اس شخص کا ہے جو اپنے حلقے کی نمائندگی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حلقے کا مینڈیٹ کہتا ہے کہ میں فلا…