یونیورسٹی آف بلوچستان سمیت دیگر یونیورسٹیز کے معزز اساتذہ، آفیسرز اور ملازمین کے دہائیوں پہلے منظور شدہ الاؤنسز کا اچانک خاتمہ قابل مذمت ہے

کوئٹہ(قدرت روزنامہ )بدقسمتی سے کہنا پڑرہا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے دعویدار اور مزدوروں کی ہمدرد کہلانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیرِ اعلیٰ جناب سرفراز احمد بگٹی اور انکی حکومت بلوچستان کی جانب سے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے اساتذہ، افسران اور ملازمین کے اہم الاؤنسز ہاؤس ریکوزیشن، ارڈرلی، یوٹیلیٹی اور دیگر الاونسز کو بیک جنبش قلم ختم کر دیا گیا ہے، جس میں یونیورسٹی آف بلوچستان سمیت تمام جامعات شامل ہیں؛ جو کہ مزدور سے اس کی دو وقت کی روٹی چھیننے کی سازش ہے؛ اور حالیہ مہنگائی کی دور میں یہ تعلیمی نظام کو جان بوجھ کر بربادی کی طرف لے جانے جارہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 22 مئی 2025 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق، یوٹیلیٹی، ہاؤس ریکوزیشن، ہارڈشپ، ٹیکنیکل سبجیکٹ، اور اسپیشل الاؤنسز کو ختم کر کے ایک نیا “PSU Allowance” نافذ کیا گیا ہے — جو ملازمین کی انسانی، بنیادی، آئینی حقوق پر شبخون تصور کیا جاتا ہے جو کہ علم دشمنی اور نام نہاد پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا شاخسانہ ہے جس سے کسی بھی صورت کامیاب ہونے نہیں دینگے ۔

ایک عرصے سے سول سوسائٹی، اساتذہ تنظیموں، ملازمین یونینز، افسران کونسلز اور طلبہ نمائندوں نے اس آمرانہ اور تعلیم کش اقدام کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے بارہا آئینی، جمہوری اور مالی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان الاؤنسز کو ایک طویل آئینی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں تسلیم کیا گیا تھا، اب ایک طرف جن وائس چانسلرز کو جھانسہ دے کر نام نہاد یونیورسٹیز فینانس کمیشن بناکر انکی ذاتی تنخواہیں 12 لاکھ تک بڑھانے تھے انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان اور دیگر یونیورسٹیز کے اساتذہ اور دیگر ملازمین کی پیٹ میں چورا گھونپنے کی سازش کی ہے جو انکی تعلیمی شعور پر سوال ہے اور انکی اس کالے اقدام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔

News 1699513946 3038 20 186x300

بیان میں کہا گیا ہے کہ پرائیویٹائزیشن کے ذریعے جامعات کے اخراجات نام نہاد اندرونی آمدن سے پورے کرنے کا بوجھ ڈالنا تعلیمی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے؛ کیونکہ تعلیمی ادارے کاروباری مراکز نہیں بلکہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیز ہیں جس کی فنانسنگ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ظالمانہ پالیسیوں سے تعلیمی نظام اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم شدید متاثر ہوگی کیونکہ ان کے والدین ایک غریب صوبے سے تعلق رکھتے ہیں اور بھاری بھرکم فیس کہاں سے دینگے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ 2030 کی یونیسکو گولز کے مطابق جی ڈی پی کی 4 سے 6 فیصد تعلیم کیلئے مختص کرنے تھے مگر صوبائی حکومت نے آج ایک مرتبہ پھر سے واضح کیا کہ یہاں ترجیحات کچھ اور ہیں تعلیم نہیں ۔

بیان میں اساتذہ کرام، آفیسرز اور ایمپلائز نے تمام جمہوری قوتوں، سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کے گروپس، سول سوسائٹی اور طلبہ تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف ہمارا ساتھ دیں اور تعلیم دوستی اور علم دوستی میں اپنا کردار ادا کرنے کا فریضہ ماضی کی طرح بھرپور نبھائیں۔

WhatsApp
Get Alert