معیشت / کاروباری دنیا

روپے کی گراوٹ کا سلسلہ جاری، ڈالر 192 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

کراچی (قدرت روزنامہ)امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کا سلسلہ آج بھی جاری رہا، انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 192 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ روز 190 روپے 20 پیسے پر بند ہونے کے بعد ڈالر نے آج دن کے آغاز میں 191 کا ہندسہ عبور کیا اور صبح 11:45 بجے کے قریب 192.20 روپے تک پہنچ گیا جو کہ اب تک ڈالر کی بلند ترین قیمت ہے۔
چیس مین ہٹن بینک کے ٹریژری ہیڈ اسد رضوی نے ویب پر مبنی مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل ’میٹس گلوبل‘ کو بتایا کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 9 فیصد تک گر چکی ہے۔انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ روسی جارحیت کے نتیجے میں معاشی سست روی اور تیل کی بلند قیمتوں نے دیگر کرنسیوں بشمول بھارتی روپے کو بھی نقصان پہنچایا اور افراط زر میں اضافے کا سبب بنی۔
ڈالر کے مقابلے روپے کی اس گراوٹ کو ملک کے بلند درآمدی بل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا میں تاخیر سے بھی جوڑا جارہا ہے۔گزشتہ روز ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ شرح مبادلہ میں اضافے نے معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
روپیہ اپنی قدر بنیادی طور پر درآمدات میں بے قابو اضافے اور برآمدات میں ترقی کی نسبتاً سست رفتار کی وجہ سے کھو رہا تھا، اس کی عکاسی تجارتی خسارے سے ہوئی جو جولائی تا اپریل میں 39 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔کرنسی ڈیلرز نے کہا کہ ڈالر کی زیادہ مانگ کرنسی مارکیٹ میں تیزی کے رجحان کی اہم وجہ ہے، موجودہ حکومت سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے ایندھن اور بجلی کی سبسڈی کو تبدیل کرنے کی شرط نے اسٹیک ہولڈرز کے اعتماد کو مزید ختم کردیا۔
مقامی کرنسی کی قدر میں روزانہ کمی ایک سنگین خوف و ہراس سبب بن سکتی ہے کیونکہ سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال کا شکار پائے جاتے ہیں، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کا مطلب صارفین کی قوت خرید میں کمی ہے کیونکہ تاجر اپنی سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے زیادہ منافع طلب کرتے ہیں۔کرنسی کے ماہرین اور ڈیلرز کو خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں روپیہ مزید تیزی سے گرے گا جب تک کہ کہیں سے آمدن کا امکان نظر نہ آئے۔
کرنسی ڈیلر ظفر پراچہ نے صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر ڈالر کی قدر جلد 200 روپے تک پہنچ سکتی ہے۔دریں اثنا فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا کہ انٹربینک مارکیٹ، اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں زیادہ غیر مستحکم ہے اور اس کی وجہ سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حج پر جانے کا ارادہ رکھنے والے افراد سعودی ریال کی کمی کی وجہ سے ڈالر خرید رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ ڈالر کی مانگ میں یہ اضافہ عارضی ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف اپنے 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے حجم کو 2 ارب ڈالر تک بڑھانے پر راضی ہو جائے گا، روپے کی تیزی سے بحالی سے جڑے اس امکان کو آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی کی معزول حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی توانائی کی سبسڈی کو مکمل طور پر واپس لینے سے مشروط کر دیا ہے۔
تاہم حکومت نے اب تک مالیاتی طور پر ان غیر پائیدار سبسڈیز کو واپس لینے کے بارے میں فیصلہ نہیں لیا ہے۔دریں اثنا درآمد کنندہ اور سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری عبداللہ ذکی نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد بڑھتی ہوئی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا خمیازہ بالآخر صارفین کو بھگتنا پڑے گا۔

متعلقہ خبریں