دعا زہرا اغواہ کیس میں ظہیر احمد بے گناہ قرار

کراچی (قدرت روزنامہ) کراچی سے پنجاب آکر پسند کی شادی کرنے والی دعا زہرا کے اغواء کیس میں اس کے شوہر ظہیر احمد کو بے گناہ قرار دے دیا گیا . تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ کراچی میں دعا زہرا کیس کے تفتیشی افسر شوکت شاہانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ظہیر پر اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا ، ظہیر کو ہم نے حفاظتی تحویل میں لیا ، دعا اور ظہیر کی پب جی کے ذریعے دوستی ہوئی، جس کے بعد وہیں نکاح کی بات ہوئی، شوہر پر کیس بنتا ہی نہیں .


تفتیشی افسر نے کہا کہ لڑکی اپنی مرضی سے گئی ہے، ہم نے کیس میں ہر پہلو پر تفتیشی کی ہے، لڑکی بیان کے بعد ظہیر پر اغوا مقدمہ نہیں بنتا جب کہ سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی سامنے آنے بعد مزید جائزہ لیا جائے گا . ادھر دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی نے بیٹی کی عمر کے تعین کی رپورٹ چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ، دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے فیصلے میں ہمیں کہا ہے کہ آپ عمر کے تعین کی رپورٹ کو چیلنج کر سکتے ہیں ، ہم عمر کے تعین کے حوالے سے میڈیکل بورڈ کی درخواست دیں گے ، سیکریٹری صحت درخواست منظور نہیں کرتے تو سندھ ہائی کورٹ جائیں گے ، ہمیں امید ہے کہ میڈیکل بورڈ کا فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا .

قبل ازیں سپریم کورٹ میں دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی نے بیٹی کے اغواء اور شیلٹر ہوم بھجوانے سے متعلق درخواست واپس لے لی ، جس پر عدالت عظمیٰ نے کیس نمٹادیا ، اس حوالے سے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دعا زہرا بازیابی کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف والدین اپیل کی سماعت ہوئی ، جہاں دعا زہرہ کے والد پیش ہوئے اور کہا کہ بیٹی سے صرف 5 منٹ کی ملاقات ہوئی ، وکیل نے بتایا کیس میں میڈیکل بورڈ نہیں بنا .
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست پر لڑکی کو لایا گیا اور مرضی پوچھی گئی ، جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے لڑکی کو اپنی مرضی سے جانے کی اجازت دی، اب آپ کیا چاہتے ہیں؟ اس معاملے میں چائلڈ میرج کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن اغواء کا دعویٰ سمجھ نہیں آرہا ، لڑکی 2 عدالتوں میں اپنی مرضی سے جانے کا بیان دے چکی ہے . اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ دو عدالتوں میں بیانات بھی ہوگئے، جب لڑکی خود بیانات دے رہی ہے تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ آگر آپ سے مل کر بھی وہ کہے کہ مجھے شوہر کے ساتھ جانا ہے تو پھر آپ کیا کہیں گے؟ اس دوران دعا کے والد عدالتی سوال کا اطمینان بخش جواب نہ دے سکے .
جس پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اللہ نے بچہ شروع سے آزاد پیدا کیا ہے ، ہم ان کے والد کا دکھ سمجھ سکتے ہیں، لیکن بچی کے بیانات ہو چکے ہیں ، آپ کسی پر الزام نہیں لگا سکتے کہ اس پر زبردستی کی گئی ، اغوا تو ثابت ہی نہیں ہوتا، کم عمری کی شادی سمجھ آتی ہے ، آپ اور آپ کی بیگم سکون سے بیٹی سے مل لیں 6 گھنٹے یا جتنے آپ چاہیں ، بچی نے مرضی سے شادی کی اور اس کی بھی خواہشات ہیں، اصل میں آپ یہ چاہتے ہیں کہ عدالت اس شادی کا تعین کرے کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ .
اس پر والد مہدی کاظمی نے کہا کہ جی میں یہی چاہتا ہوں ، لڑکی ابھی چھوٹی ہے ، ہمارے ہاں ولی کے بغیر شادی نہیں ہوتی ، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ شادی کی حیثیت کو چیلنج تو صرف لڑکی کر سکتی ہے ، قانون تو واضح ہے ، سندھ کے قانون کے تحت بھی نکاح ختم نہیں ہوتا ، ہم بچی سے زبردستی نہیں کر سکتے . جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ گارڈین کا کیس سیشن عدالت میں دائر کر سکتے ہیں، آپ سول سوٹ دائر کر سکتے ہیں ، قانونی نکات کو سمجھیں ، ہمیں کیس کی حساسیت کا اندازہ ہے مگر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ، آپ میرج ایکٹ پڑھ لیں ، لڑکی کی شادی کو صرف لڑکی ہی چیلنج کر سکتی ہے ، ہراسانی اور اغوا کا کیس تو نہیں بنتا ، اگر 16 سال سے کم عمر میں بھی شادی ہو تو نکاح رہتا ہے ، نکاح تو آپ ختم نہیں کر سکتے ، بھلے سے کم عمری میں نکاح ہو نکاح ختم نہیں ہوتا .
بعدازاں والد مہدی کاظمی کے وکیل نے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کیس نمٹاتے ہوئے ان کی درخواست خارج کردی ، سپریم کورٹ نے مہدی کاظمی کو متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ کیس ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتا ، دعا زہرا کی عمر سے متعلق میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے مناسب فورم سے رجوع کرسکتے ہیں .

. .

متعلقہ خبریں