سستی گیس خریدی ہوتی تو اتنی بری معاشی صورتحال نہ ہوتی، وزیراعظم نے ملبہ سابق حکومت پر گرا دیا

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پچھلی حکومت نے اگر سستی گیس خریدی ہوتی تو آج ملک میں اتنی بری معاشی صورتحال نہ ہوتی، شدید گرمی میں بجلی نہ آئے تو عوام بددعائیں دیتے ہیں اور اگر گیس کاٹتے ہیں تو ہماری صنعتیں متاثر ہوتی ہیں،

یہ ہمارے لیے بہت مشکل چیلنج ہے . لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم جو کوشش کررہے ہیں اس کے ابھی تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے اور ان کی وجوہات سے ہم اچھی طرح آگاہ ہیں، میری عادت نہیں کہ میں پچھلے حکومتوں کا ذکر کرتا رہوں اور آج یہ ذمے داری ہماری ہے، ہمیں یہ ذمے داری بہت احسن طریقے سے نبھانی ہے .

انہوں نے کہاکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلی حکومت نے بجلی کے پلانٹس کی وقت پر مرمت نہیں کرائی گئی، وہ بند پڑے تھے، ان پلانٹس کی ان چند مہینوں میں ہماری حکومت نے مرمت کرا کر چالو کرایا جبکہ ایندھن کا بہت بڑا چیلنج سامنے آیا جس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں . انہوں نے وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ عالمی منڈیوں میں تیل اور گیس کی قیمتیں شاید پچھلی دہائیوں میں بلند ترین سطح پر ہیں اور کروڈ آئل 118ڈالر فی بیرل تک چلا گیا اور اسی طریقے سے گیس بھی بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہے تو جب ہم اتنے مہنگے تیل اور گیس پر بجلی بنائیں گے تو ہمیں سوچنا ہوتا ہے ہمارا زرمبادلہ کتنا خرچ ہو گا، ہم ایک ایک پائی بچانے کے لیے دن رات کوشش کررہے ہیں . شہباز شریف نے کہا کہ یوکرین کے مسئلے کی وجہ سے بعض ترقی یافتہ ممالک گیس خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے بیچنے والوں نے بولیاں ہی طلب نہیں کیں جس سے ہمیں بہت نقصان پہنچا،

اسی طرح گیس کا ٹینڈر آیا تو وہ 40ڈالر فی یونٹ پر تھا تو ہم نے سوچ سجھ کر فیصلہ کیا کہ اتنی مہنگی گیس نہ لی جائے ورنہ ہمیں بہت مہنگی بجلی خریدنی پڑتی . وزیر اعظم نے کہاکہ پچھلی حکومت کو سستی گیس خریدنے کا موقع ملا تھا لیکن اس نے اپنی مجرمانہ غفلت کے سبب تین یا چار ڈالر پر خریدنے کے سودے نہیں کیے، اسی طریقے سے گیس کے طویل المدتی سودے پانچ یا چھ ڈالر پر ہو سکتے تھے لیکن وہ بھی نہیں کیے، اگر یہ سودے

کر لیے جاتے تو معیشت کی اتنی بری صورتحال پیدا نہ ہوتی . وزیراعظم نے کہا کہ ہم لوڈشیڈنگ میں کمی کیلئے دن رات کوشش کررہے ہیں تاہم شدید گرمی میں پنکھا نہ چلے تو وہ بددعائیں دیتے ہیں، گیس کاٹتے ہیں تو ہماری صنعتیں متاثر ہوتی ہیں تو یہ ہمارے لیے بہت مشکل چیلنج ہے، اس سب کے باوجود ہم بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں . انہوں نے کہاکہ پچھلی حکومت نے چین کا ریوولونگ اکاؤنٹ وعدے کے باوجود نہیں کھولا جس پر چین نے شدید اعتراض کیا تھا،

اسی طریقے سے حویلی بہادر شاہ میں جرمن کمپنی سیمنز نے ہمارے زمانے میں ساڑھے 1200 میگا واٹ کا پاور پلانٹ لگایا تھا، اس کی پہلی ٹربائن 2018 میں سائٹ پر پہنچ گئی تھی، اسے ڈھائی سے پہلے چل جانا چاہیے تھا لیکن وہ بھی بند پڑا ہے کیونکہ پچھلی حکومت کو توفیق ہی نہیں ہوئی، قوم کے 30 سے 40 ارب روپے ضائع ہو چکے ہیں جبکہ سی پیک کے پن بجلی کے منصوبوں میں بھی تاخیر کی گئی . انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ جن پلانٹس میں تاخیر ہوئی ہے ان کو جلد سے جلد چلائیں، ہمیں حکومت سنبھالتے ہی یہ حقیقی چیلنجز ملے تاہم ہم ضرور ان چیلنجز کو حل کریں گے اور اس بحران سے پاکستان کے عوام کو نکالیں گے، وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاطر خواہ کمی آئے گی .

. .

متعلقہ خبریں