پاکستان

انٹرا پارٹی الیکشن کیس، پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر سماعت کے دوران تحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیے۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 40 سوال پوچھے ہیں، انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد فوری تفصیلات اور دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں، ای سی پی سے اس وقت کہا کہ کوئی کمی ہے تو ابھی بتا دیں، ہمیں پھر نوٹس آیا جس میں 3 سوالات پوچھے گئے، کل ایک کیس میں میری بحث مکمل ہونے کے بعد 40 نئے سوالات آ گئے، میں اس صورتِ حال سے حیران اور مایوس ہوا، میں الیکشن کمیشن کا مخالف نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ تسلی رکھیں، آپ سے آفس نے 4 سوالوں کے جواب مانگے، کمیشن کو وہ جوابات دیے گئے، کمیشن نے مناسب سمجھا کہ آپ کو سن کر فیصلہ کیا جائے، آپ کے فائدے کے لیے سماعت کی، ہم چاہتے ہیں کہ جلدی کیس نمٹے۔اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
علی ظفر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پوچھا گیا کہ فارم 65 پر پارٹی چیئرمین نے کیوں دستخط کیا؟ ان کے مجاز نمائندے نےکیوں نہیں کیا، الیکشن کمیشن رولز میں ہے کہ پارٹی سربراہ دستخط کرے، پارٹی سربراہ شہباز شریف نے فارم 65 پر خود دستخط کیے، ہمیں کہا گیا کہ پارٹی سربراہ دستخط نہ کرے، ان کا مجاز دستخط کرے، یہ امتیاز کیوں؟ یہ ایسی چیز نہیں جس کی بنیاد پر الیکشن منسوخ کیا جائے یا نشان روک دیں، اعتراض کیا گیا کہ جون کا الیکشن کالعدم قرار دیا تو اس کا کیوں ذکر کیا؟ ہم نے اس اعتراض کو پہلے ہی درست کر لیا ہے، ہر جماعت کو پارٹی الیکشن کرانا ہوتا ہے، اعتراض کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے 13 جون 2023ء سے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرایا، ہمارے الیکشن کو آپ نے منسوخ کیا، آج یہ سوال کیوں کیا جا رہا ہے؟ الیکشن کمیشن نے دوبارہ الیکشن کا کہا، ہم نے کرا لیا، کمیشن نے 20 دن کا وقت دیا اور ہم نے الیکشن کرا لیا، اب کمیشن کے لوگ ہی پوچھ رہے ہیں، یہ سوال غیر متعلقہ ہے۔
دلائل دیتے ہوئے بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ اعتراض کیا گیا کہ بڑے پیمانے پر تشہیر کیوں نہیں کی، اعتراض کیا گیا کہ الیکشن شیڈول، مقام ، سی ای سی کی تعیناتی کیوں شائع نہ کی، کس رول میں لکھا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی ایسے تشہیر کرنا ہے، اس بات کا جواب کل سماعت میں ہم نے بتا دیا ہے، الیکشن کمیشن کے یہ مینڈیٹ میں نہیں، ای سی پی کیسے متاثرہ ہے؟ ہم نے سب کو ووٹ میں برابری کے مواقع دیے، فارم 65 میں تو ہے کہ آپ کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے اور سرٹیفکیٹ آیا، اعتراض کیا کہ نیشنل کونسل کیوں نہیں بنائی اور فیڈرل الیکشن کمشنر نہیں بنایا، نیشنل کونسل الیکٹورل کالج نہیں، یہ بڑی باڈی ہے جو الیکشن کے نتیجے میں بنتی ہے، نیشنل کونسل کا قیام الیکشن سے قبل ممکن نہیں، الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں 6 ہفتے لگنے تھے اس لیے ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کے آئین کو بالکل غلط طور پر سمجھا گیا، کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے دو مرحلوں میں الیکشن نہیں کیا، آپ چیئرمین اور پینل کا الیکشن ایک شیڈول میں ایک ہی دن کرا سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کو ایسے کیسے خیال آیا کہ ایک ہی دن میں دونوں الیکشن کرنے ہیں؟ آئین میں کوئی بات نہیں کہ 2 دن میں الیکشن کرنا ہے، الیکشن شیڈول میں لکھا ہے کہ مرکزی اور صوبائی الیکشن ہو گا، چیئرمین کا مرکز میں الیکشن ہوتا ہے، ہم نے اعلان کیا تھا کہ چیئرمین کے نمائندے بیرسٹر گوہر ہوں گے، ہم نے تو چھپا کر نہیں کیا، ہمارے چیئرمین نے تو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، الیکشن کمیشن نے سوال کیا کہ الیکشن کے 2 شیڈول کیوں نہیں دیے؟ کیا اس بنیاد پر الیکشن مسترد ہو جاتا ہے اور ایک جماعت کو نشان نہ ملے؟
بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ ن لیگ نے صرف مرکزی الیکشن کرائے صوبائی نہیں۔ممبر الیکشن کمیشن نے سوال کیا کہ آپ نے کیا ن لیگ کے الیکشن کو چیلنج کیا؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نوٹس الیکشن کمیشن نے لیا ہے، کیا باقی جماعتوں کا بھی لیا؟
چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ کئی جماعتوں کو نوٹس گیا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ووٹنگ کیوں نہیں کرائی، یہ ایک بلا مقابلہ الیکشن تھا، ساری جماعتوں کے الیکشن بلا مقابلہ ہوتے ہیں، یہ سوال ان سے نہیں پوچھا گیا۔
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ سوال باقی جماعتوں سے بھی پوچھا گیا ہو گا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پوچھا گیا کہ خفیہ رائے شماری کیوں نہیں ہوئی، کہا جا رہا ہے کہ پینل کیوں بلا مقابلہ منتخب ہوا؟ ووٹنگ میں کیوں نہیں لے کر گئے، پینل کے مقابلے میں کوئی نہیں آیا، اس لیے بلا مقابلہ الیکشن ہوا۔

متعلقہ خبریں