پنجاب سے گزشتہ سال ڈھائی ہزار بچے اغوا، 891 جنسی زیادتی کا نشانہ بنے
لاہور(قدرت روزنامہ) اسسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں صوبہ پنجاب میں بچوں پر تشدد کے واقعات کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ رہی جو متعلقہ اداروں کی فوری توجہ کا تقاضہ کرتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں مجموعی طور پر بچوں کے اغوا کے 2534 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ اس سے گزشتہ سال 2022 میں بچوں کے اغوا کے 2539 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
سال 2023 کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزانہ اوسطاً 7 بچوں کو اغوا کیا گیا، یہ ایک خطرناک اعشاریہ ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بچوں کے اغوا کی روک تھام کے حوالے سے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اس سلسلے میں سب سے حساس اضلاع کے لحاظ سے زیادہ تر کیسز لاہور (840)، سیالکوٹ (194) اور گوجرانوالہ (143) سے رپورٹ ہوئے۔
اسی طرح جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد بھی تشویش کا باعث تھی۔ سال 2023 میں مجموعی طور پر 891 کیسز سامنے آئے جبکہ 2022 میں یہ تعداد 621 تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 میں ہر ہفتے تقریبا 17 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک بار پھر لاہور (346) رپورٹ کیسز کے لحاظ سے نمایاں اور حساس ترین رہا۔ اس کے بعد شیخوپورہ میں 76 اور بہاولنگر میں 61 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس کے علاوہ، چائلڈ پورنوگرافی کے 12 کیسز بھی رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق اس سال بچوں کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی انتہائی تشویشناک ہیں، 2023 میں 493 واقعات رپورٹ ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ہفتے ملک بھر میں اوسطا 9 بچے قتل کیے گئے۔ بچوں کے قتل کے مختلف رپورٹ کردہ واقعات کے لحاظ سے لاہور (61)، فیصل آباد (32) اور گوجرانوالہ (26) نمبر پر تھے جبکہ یہ شہر درج کردہ کیسز کے لحاظ سے بڑے ہاٹ اسپاٹ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
سال 2022 سے 2023 تک بچوں کی اسمگلنگ اور جسمانی استحصال کے واقعات میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ 2023 میں 157 بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 2022 میں یہ تعداد 83 تھی۔ اسی طرح 2023 میں بچوں کی اسمگلنگ کے 108 واقعات کی رپورٹ درج کی گئیں جبکہ 2022 میں یہ تعداد 49 تھی۔
جسمانی تشدد کے رپورٹ کردہ واقعات میں سیالکوٹ (37)، فیصل آباد (16) اور شیخوپورہ (11) کے ساتھ ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں جبکہ بچوں کی اسمگلنگ کی درج کردہ رپورٹس کے مطابق ٹوبہ ٹیک سنگھ (51) اور چنیوٹ (35) کیسز کے طور پر نمایاں ہیں۔ ان اضلاع کو بھی بچوں کی اسمگلنگ کے ہاٹ اسپاٹس میں شامل کیا گیا ہے۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ بچوں کے ساتھ تشدد اور جنسی زیادتی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ پنجاب میں پولیس ان کیسز کو رجسٹر کرنا شروع ہوگئی ہے، اب عدالتوں کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں پر تشدد کے کیسز پر سخت اور جلد فیصلہ دیں تاکہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے اور اس جرم کو روکا جا سکے۔
کوثر عباس نے کہا کہ ’’ہر نمبر ایک ایسے بچے کی نمائندگی کرتا ہے جس کی حفاظت پر سمجھوتہ کیا گیا ہے، یہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تشدد اور استحصال سے بچانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کریں۔ صرف ہماری مشترکہ کوششیں ہی ہر بچے کے محفوظ اور روشن مستقبل کو یقینی بنانے میں کارآمد ہو سکتی ہیں۔
واضع رہے کہ یہ اعداد و شمار آئین کے آرٹیکل 19 اے اور پنجاب ٹرانسپیرنسی اور معلومات تک رسائی کے قانون 2013 کے تحت پنجاب پولیس میں ’’رائٹ ٹو انفارمیشن‘‘ درخواست دائر کرکے جمع کیے گئے تھے۔