یورپ کے 12 ممالک میں پاکستان کے پرچم نظر آئیں گے لیکن کیسے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان سیاحت کے اعتبار سے دنیا کے پسندیدہ ممالک میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان کی عام شاہراہوں پر موٹر سائیکل سوار سیاحوں کو اکثر دیکھتے رہتے ہیں جو ساتھ ساتھ اپنے وی لاگز کے ذریعے پاکستان کی خوبصورتی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستانی بھی ایسے ہی اپنی تعطیلات کے دوران موٹر سائیکل لے کر ورلڈ ٹور پر نکل سکتے ہیں یا یہ کہ اگر ایسا ہو جائے تو اخراجات کتنے آئیں گے یا پھر پاکستان میں اس حوالے سے کوئی کام ہو رہا ہے یا نہیں۔
اس حوالے سے ہم نے بات کی ہے 35 برس سے ٹریولنگ سے منسلک اور کراس روٹ کلب پاکستان کے سندھ کے صدر خرم سعید خان جو اب تک 27 ممالک کا بائیک اور کار پر وزٹ کر چکے ہیں۔
کراس روٹ کلب کا مقصدر کیا ہے؟
ہزاروں ممبران پر مشتمل کراس روٹ کلب کے بارے میں خرم سعید خان بتاتے ہیں کہ اس کلب کا مقصد پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینا ہے اور اس سلسلے میں ہم مختلف تقاریب منعقد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ بھی مقصد ہے کہ ہم مل کر پاکستان کا مثبت پہلو پوری دنیا کو دکھائیں تاکہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے میں آسانی پیدا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری جستجو ہے کہ دنیا بھر سے سیاح پاکستان آئیں اور ہم انہیں پورا پاکستان دکھائیں جس میں ہم کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کوآرڈینٹرز ملک بھر میں موجود ہیں جو ان سیاحوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بائیکس پر آئے سیاح پاکستان کے ایک کونے سے آخری کونے تک ضرور جائیں اور اس ملک کے ہر حصے کی خوبصورتی دیکھ کر واپس جائیں۔
کورونا کی وبا کے دوران سیاحت کو ہونے والے نقصان کو کیسے پورا کیا گیا؟
خرم سعید خان کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 کے وقت جب پوری دنیا بند ہوئی تو سب سے زیادہ نقصان سیاحت اور ہوٹلنگ انڈسٹری نے اٹھایا اور جب یہ عرصہ بیت گیا تو اس کے بعد ہماری کوشش یہ رہی کہ پھر سے سیاحت کو فروغ دیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس میں ہم نے کیا یہ کہ ہم لوگ نکلے پاکستان بھر میں اور سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی جس میں ہم پاکستان کے کونے کونے سے تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالتے گئے، بلاگز لکھتے رہے، ویڈیوز کی شکل میں معلومات فراہم کرتے رہے تا کہ کم سے کم مقامی سیاحت کو فرغ مل سکے اور جو نقصان کورونا میں ہوا یا جو کام رک گیا تھا اسے دوبارہ بحال کیا جائے۔
پاکستان میں وہ سب کچھ ہے جسے دنیا دیکھنا چاہتی ہے
پاکستان کی ثقافت، تاریخ اور قدرتی مناظر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب بھی سیاحت، ثقافت، پہاڑوں یا تارخ کے حوالے سے بین الاقوامی دن آتے ہیں تو ہم ان دنوں کو مناتے ہیں اور دنیا کو دکھاتے ہیں کہ ہمارے پاس 4 موسم ہیں اور اس کے علاوہ بھی وہ سب ہے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں اس کے ذریعے ہم ملک کا مثبت پہلو دنیا بھر میں پہنچا چکے ہیں۔
لوگ پاکستان تو آتے ہیں لیکن پاکستان سے باہر کوئی نہیں جاتا
اس حوالے سے خرم سعید خان کہتے ہیں کہ ہم نے 10 برسوں میں محسوس کیا کہ لوگ سیاحت کے لیے بائیکس پر پاکستان تو آتے ہیں لیکن پاکستان سے کوئی نہیں جاتا اس لیے ہم نے کوشش کی اور سب سے قریب ملک ایران تھا جہاں ہم 25 بائیکرز پاکستان سے گئے اور اس کے بعد سفر نور کے نام سے عمرے کی غرض سے 22 بائیکرز پاکستان سے سعودی عرب گئے جس کے بعد ہم استنبول تک گئے۔
بلوچستان کے بارے میں جو سنا ایسا نہیں ہے
خرم سعید کہتے ہیں کہ بائیکس کے بعد ہم نے طے کیا کہ اب گاڑیوں پر انٹرنیشنل ٹور پر جائیں گے جس میں ہم ایک سال کی کاوشوں کے بعد کامیاب ہوئے اور یہ 22 روز کا سفر کراچی سے شروع ہونا تھا۔ اس پر لوگوں کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں لیکن ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی کہ ایسا کچھ نہیں جو بتایا جاتا ہے ہم کامیابی سے بلوچستان سے ہوتے ہوئے ایران میں داخل ہوئے اور ایسا لگا نہ جانے ہم نے کون سا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے کہ اپنی گاڑیوں کے ہمراہ ایران میں داخل ہوگئے۔
پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کریں تاکہ دنیا کے ہر کونے تک ہمارا پاسپورٹ پہنچ سکے
خرم سعید کے مطابق جب انہوں نے یورپ ٹور کا فیصلہ کیا تو انہیں اس بات کا احساس رہا کہ کوشش کریں کہ پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کیا جائے تاکہ ہمارا پاسپورٹ متعارف ہوسکے اور بارڈر پر یہ پیغام جائے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر بھی سفر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں میں ہمت پیدا کرنے کے لیے کوشش کریں گے کہ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو اپڈیٹ رکھتے رہیں تا کہ پاکستانیوں تک یہ پیغام جا سکے کہ ہمارے پاسپورٹ پر بھی ٹور ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے جھنڈوں کے ساتھ یورپ کا ٹور
ان کا کہنا ہے کہ اگست سے آغاز ہونے والا ہمارا یورپ کا ٹور 60 روز پر مشتمل ہوگا جو یورپ کے 12 ممالک سے ہوتا ہوا واپس پاکستان آئے گا اور یہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم روڈ کے ذریعے جائیں گے اور ہماری گاڑیوں پر پاکستان کے پرچم لگے ہوں گے۔
روڈ کے ذریعے یورپ ٹرپ پر کتنا خرچہ آتا ہے؟
اس سوال پر خرم سعید خان کا کہنا تھا کہ یورپ کے 60 روزہ ٹرپ پر فی کس 5 سے 6 ہزار ڈالر کا خرچ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت پاکستان سے بھی رابطے میں ہیں اور ساتھ ہی ہم وی نیوز کے پلیٹ فارم سے بھی ضرور کہیں گے کہ پاکستان میں موجود بڑی کمپناں اگر چاہیں تو ہمیں اسپانسر کرسکتی ہیں کیوں کہ جہاں جہاں ہم جائیں گے ان کا نام بھی ساتھ ساتھ چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ کمپنیوں سے ہم رابطے میں بھی اور پھر بھی اگر کچھ نہ ہوا تو ہم ذاتی خرچ سے تو جا ہی رہے ہیں۔