سب کو معلوم ہونا چاہیے، اسلام آباد میں جلسے جلوسوں کے لیے قانون بن چکا ہے، عرفان صدیقی
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا ہے کہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام آباد میں جلسے جلوسوں سے متعلق بل قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے، ایسے قوانین امریکا، برطانیہ اور دیگر تمام ممالک میں ہیں جہاں خلاف ورزی پر کڑی سزائیں موجود ہیں۔
پیر کو سینٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ جلسے جلوس سے متعلق قانون منظورہو چکا ہے، امریکا برطانیہ اور دیگرممالک میں بھی یہ قانون موجود ہیں جن کی خلاف ورزی پر کڑی سے کڑی سزا موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جلسے جلوسوں کے حوالے سے پہلے سے ہی 3 قوانین موجود ہیں، جن میں سے پبلک آرڈرایکٹ 1986 اور سیریئس کرائم ایکٹ کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کڑی سزائیں تجویز ہیں۔
سینیٹرعرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ امریکا میں جلسے جلوسوں کے حوالے سے ہرریاست میں الگ قوانین ہیں جن کی خلاف ورزی پر4 سال قید کی سزا ہے۔
عرفان صدیقی نے برطانیہ میں جلسے جلسوں کے حوالے سے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر برطانیہ میں پبلک آرڈر ایکٹ 1988 میں 12 یا 12 سے زیادہ لوگوں کا احتجاج پرامن نہیں ہے، وہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں تو ان کے لیے 10 سال قید کی سزا ہے اس کے علاوہ ایکٹ کے تحت ان پر لامحدود جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگربرطانیہ میں 3 افراد بھی جمع ہو کرقانون کے مطابق احتجاج نہیں کرتے تو ان کے لیے بھی 5 سال قید کی سزا ہے، اسی طرح فرانس اور دیگر ممالک میں کریمنل ایکٹ موجود ہے، جس کے تحت سخت سزائیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خصوصاً اسلام آباد میں جلسے جلوسوں سے متعلق معاملات پہلے انتظامیہ کی صوابدید پر تھے تاہم اب اس سے متعلق باقاعدہ قانون بن چکا ہے، یہ ایسی کوئی انہونی چیز نہیں جو ایوان نے کی، اس قانون کی 5 جماعتیں محرک ہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور باپ پارٹی اس بل کی محرک ہیں۔
عرفان صدیقی نے ایوان بالا کو مزید بتایا کہ اسلام آباد قانون سازی اکثریت کا استحقاق ہوتا ہے، حکومت نے اس استحقاق کو استعمال کیا ہے۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام آباد میں جلسے جلوسوں سے متعلق بل قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ شبلی فراز نے میرے کنڈکٹ کی 2 بار تعریف کی ہے، ایوان میں کھڑے ہو کر کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا۔ میرے متعلق جو ریمارکس دیے گئے انہیں بھی درگزر کرتا ہوں۔