کراچی میں بلدیاتی انتخابات پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ محفوظ

کراچی (قدرت روزنامہ)الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا . الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی .

دورانِ سماعت جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن، پیپلز پارٹی کے نمائندے مرتضیٰ وہاب اور ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے . آئی جی سندھ، چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری لوکل باڈی بھی الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے .
الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکریٹری ظفراقبال نے دورانِ سماعت کہا کہ سیلاب کے باعث بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کیا گیا، سندھ کی صوبائی حکومت نے 90 روز کے لیے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی منظوری دی ہے، جبکہ الیکشن کمیشن کراچی میں الیکشن کرانے کے لیے تیار ہے، سندھ میں بلدیاتی حکومت کی مدت اگست 2020ء میں مکمل ہوئی تھی، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں، کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا التواء سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے .
چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ وزارتِ داخلہ بتائے کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے ایف سی اور رینجرز کی کیا پوزیشن ہے؟وفاقی وزارتِ داخلہ کے حکام نے بتایا کہ فورسز ابھی تک سیلاب زدہ علاقوں اور امن و امان میں مصروف ہیں، ہم پوزیشن میں نہیں کہ سیکیورٹی فراہم کر سکیں، صورتِ حال اس قابل نہیں کہ ہم سول آرمڈ فورسز کو کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے لیے مہیا کر سکیں .
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ جب ہم نے سیکیورٹی فورسز کا اجلاس کیا تھا تو اس دن سندھ حکومت کا مؤقف مختلف تھا . مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سندھ حکومت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود نہیں کر رہی، ہم کبھی بھی الیکشن سے نہیں ہچکچائے، ہم نے پہلے مرحلے کے انتخابات کرائے، پہلے الیکشن افہام و تفہیم سے ہوا، نہیں چاہتے کہ کراچی میں الیکشن پر سوالات اٹھیں .
ممبر الیکشن کمیشن نے استفسار کیا کہ سندھ حکومت کہنا چاہتی ہے کہ جب وہ تیار ہو تب الیکشن کمیشن انہیں سنے؟ ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا جواب بھی ہمیں جمع کرائیں . مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سندھ حکومت نے 90 روز کا التواء منظور کیا ہے .
’’الیکشن کمیشن کا اختیار سندھ کابینہ کیسے استعمال کر سکتی ہے؟‘‘
الیکشن کمیشن کے ممبر اکرام اللّٰہ خان نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار سندھ کابینہ کیسے استعمال کر سکتی ہے؟مرتضیٰ وہاب نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرنا سندھ حکومت کا اختیار ہے، سندھ حکومت الیکشن کمیشن سے مشاورت سے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرے گی . الیکشن کمیشن کے ممبر نے کہا کہ الیکشن صرف الیکشن کمیشن ملتوی کر سکتا ہے .
چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ آپ کا مؤقف ہے کہ ووٹر اور عملے کو سیکیورٹی فراہم نہیں کر سکتے، ہم سیکیورٹی کا شارٹ فال پنجاب سے پورا نہ کر لیں؟ آپ نے وفاق کو اپنی پولیس بھیجی ہے، ہم پنجاب سے کہتے ہیں کہ وہ سندھ کو پولیس فراہم کرے . مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سندھ حکومت الیکشن کمیشن کے اختیار لینے کی ہرگز بات نہیں کرتی . ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم الیکشن شیڈول تبدیل کر سکتے ہیں، صوبائی حکومت نہیں .
چیف سیکریٹری سندھ نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے کراچی میں 17 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی ممکن نہیں، سندھ سے اتنی سیکیورٹی کو کراچی لے جانا فوری ممکن نہیں، ایسا الیکشن کرانا چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور عوام اسے شفاف کہیں، ہمیں کچھ وقت مل جائے تو کراچی میں الیکشن بہتر انداز سے ہو جائے گا .
PTI کے وکیل کے دلائل
پی ٹی آئی کے وکیل شہاب امام نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو 10 ماہ ہو گئے لیکن الیکشن نہیں ہوئے، کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی ایک تاریخ دی جائے، سندھ حکومت بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات منتقل کرنا نہیں چاہتی، سندھ کابینہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں 90 روز کا التواء نہیں کر سکتی، ایک تاریخ دی جائے کہ اس پر کراچی میں الیکشن ہوگا، سندھ حکومت فنڈز لوکل باڈیز کو نہیں دینا چاہتی، بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پہلے مسائل پر قانون سازی کی جائے، ایم کیو ایم سے اتفاق کرتے ہیں، بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات ملنے چاہئیں، اگر قانون سازی نہ ہوئی تو میئر کراچی وسیم اختر کی طرح بے اختیار ہو گا، 6 ہزار پولیس اہلکار اسلام آباد بھیج کر یہ کہتے ہیں کراچی میں امن و امان کا مسئلہ ہے، سندھ حکومت نے دھرنا روکنے کے لیے پولیس اہلکار اسلام آباد بھیجے .
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ 6 ہزار پولیس اہلکار واپس بھیجے جائیں؟ پی ٹی آئی بھی وہی بات کر رہی ہے کہ کراچی میں الیکشن ملتوی کیے جائیں، سندھ حکومت تو شائد 30 روز میں بلدیاتی الیکشن کرا لے گی، پی ٹی آئی جو کہہ رہی ہے وہ تو لامحدود وقت تک الیکشن نہ کرانے کی بات ہے . پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ 90 روز میں الیکشن کرانے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں .
حافظ نعیم الرحمٰن کے دلائل
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے الیکشن کمیشن میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام جماعتیں کراچی کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے اکٹھی ہو گئی ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رینجرز اور پولیس کے اتنے اہلکار نہیں جتنے سندھ حکومت کہہ رہی ہے، سندھ رینجرز کے تو کراچی میں 14 ہزار اہلکار ہیں، آپ سندھ رینجرز کے اہلکاروں کو کراچی بلدیاتی انتخابات میں لگائیں، فوج تو ہماری زیادہ ہے، فوج کو بلائیں، آپ 2018ء کے الیکشن میں ہر پولنگ اسٹیشن پر فوجی بٹھا سکتے ہیں لیکن کراچی میں نہیں؟
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے 90 دن ضیاء الحق کے 90 دن ہیں، وہ بھی الیکشن نہیں کراناچاہتے تھے اور سندھ حکومت بھی نہیں چاہتی، اتنا ڈرا ڈرا کر الیکشن کرائیں گے تو پھر ملک میں الیکشن نہیں ہوں گے، سیلاب متاثرہ علاقوں میں لوگ گھروں کو چلے گئے ہیں،اب کراچی میں الیکشن سے آغاز کیا جائے، نیت کا معاملہ ہے، یہ سب کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتے، الیکشن کمیشن کراچی میں الیکشن کی تاریخ دے .
’’حافظ نعیم! بتائیں کہ الیکشن کرانے کی کتنی مدت دی جائے؟‘‘
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ووٹر کی سیکیورٹی کا مسئلہ ایک ہے، کمیشن نے خود قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے رابطہ کیا، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں پہلی ٹیئر میں ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں، وہ دوسرے یا تیسرے لیول پر ڈیوٹی کرنے کو تیار ہیں، اسٹیٹک ڈیوٹی کے لیے ہمارے پاس پھر پولیس ہی رہ جائے گی، حافظ نعیم! آپ بتائیں کہ انہیں الیکشن کرانے کی کتنی مدت دی جائے؟حافظ نعیم الرحمٰن نے جواب دیا کہ آپ انہیں کراچی کے بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے 45 دن کی مہلت دیں، یہ 45 دن بھی میں مجبوری میں کہہ رہا ہوں، لوگ تو الیکشن کمیشن کی تاریخ پر اب اعتماد کھو رہے ہیں .
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کرانے کی ہم نے بہت کوشش کی ہے، آرڈر وہی ہونا چاہیے جس پر عمل درآمد ہو سکے، الیکشن کمیشن پر بہت ذمے داری آتی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تو مکمل انکار کر دیا، الیکشن کمیشن معاملے پر جلد فیصلہ کرے گا . اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا .

. .

متعلقہ خبریں