انتخابات کیس؛ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنما کل سپریم کورٹ طلب


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ نے انتخابات کیس میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنماؤں کو کل طلب کرلیا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ ملک میں انتخابات ایک ساتھ کروانے سے متلعق درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔وزرات دفاع کی درخواست پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے، حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں فنڈز کا معاملہ پہلے قائمہ کمیٹی منظوری کیلئے بھیجا، جس نے قومی اسمبلی بھیجا جہاں سے مسترد کردیا گیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالت کو کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی، اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا، کیا الیکشن کیلئے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ وزیراعظم کے ہاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے، آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے پاس کرسکتی ہے؟ کیا حکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہیں ہونی تھی؟ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ گرانٹ کی بعد میں منظوری لینا رسکی تھا، موجودہ کیس میں گرانٹ جاری کرنے سے پہلے منظوری لینے کیلئے وقت تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزارت خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے، حکومت کی گرانٹ اسمبلی سے کیسے مسترد ہو سکتی ہے، کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے، حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا سپلیمنٹری گرانٹ منظور نہیں کروا سکتی تھی۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے، اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضرورت نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے، توقع ہے حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے جواب دے، اس معاملہ کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، جس کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، دہشتگردی ملک میں 1992 سے جاری ہے لیکن پہلے بھی الیکشن ہوئے، اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہو سکتے، کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہو ہونے ہی تھے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے، عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے؟ فنڈز کے حوالے سے عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول حکومت کی مدد کو آتی ہے؟ وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہی؟۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ 27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی 4 اپریل کو فیصلہ آیا، پہلے 4/3 کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا، گزشتہ دنوں ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی، ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری دفاع بھی موجود تھے، ملاقات میں افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا، سب کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے ، الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں الیکشن کروالیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے، وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، ٹی وی پر سنا ہے وزراء کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے، ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، بلاول آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے، معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے، دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب بحث ہورہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر زور دینے کا کہا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے ان کو یہ مؤقف اپنانے سے روکا، مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی، یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے ، 14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، 5 دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں، میرے ساتھی ججز کہتے ہیں 5 دن کا وقت بہت ہے۔عدالت نے فیصل چوہدری کو روسٹرم پر بلاکر پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے؟، تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا، قوم کی تکلیف اور اضطراب کا عالم دیکھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نوے دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے، آئین کے مطابق نوے دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں، آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں، عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا، حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی، عدالت ایک دن انتحابات کرانے کی درخواستوں پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیتی ہے؟ سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کررہے ہیں، نگران حکومت نوے دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنماؤں کو طلب کرتے ہوئے انتخابات کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے، سیاسی عمل اگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے۔