سپریم کورٹ کا ’غیرسنجیدہ درخواست‘ دائر کرنے پر وزارت دفاع پر جرمانہ
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ نے غیرسنجیدہ دعویٰ دائر کرکے عدالت کا قیمتی وقت ضائع کرنے اور قانون کی عملداری کے غلط استعمال پر وزارت دفاع پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔ ڈان اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے وزارت دفاع کی طرف سے دائر درخواست مسترد کر دی جو 7 ستمبر 2020ء کو لاہور ہائی کورٹ سے وزارت دفاع کی درخواست خارج کیے جانے کے خلاف دائر کی گئی تھی، جس کو سپریم کورٹ نے ناصرف خارج کردیا بلکہ اس کے ساتھ اپنے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا اور درخواست گزار کو حکم دیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اِس جرمانے کی رقم اپنی مرضی کی کسی بھی فلاحی تنظیم میں جمع کرادے۔
بتایا گیا ہے کہ وزارت دفاع کی طرف سے فرخ انٹرنیشنل (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے خلاف اس کے پروپرائٹر فردوس منور کے ذریعے 9 لاکھ 12 ہزار 801 روپے کی وصولی سے متعلق اس کیس میں راولپنڈی کے ایک سول جج نے 22 فروری 2014ء کے حکم نامے کے ذریعے مقدمے کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ درخواست گزار اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کے بعد ٹرائل کورٹ کے فیصلے اور حکم نامے کے خلاف دائر اپیل راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے خارج کر دی۔
معلوم ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ درخواست گزاروں نے ایک معاہدے پر انحصار کیا جو مالی اور مستقبل کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے، اس لیے کیس اور دستاویزات کو ثابت کرنے کی بنیادی ذمہ داری درخواست گزار کی تھی لہٰذا ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کو اپنے مؤقف کی حمایت میں ثبوت پیش کرنے کو کہا اور اگر دستاویزات قانون کے ذریعے طے شدہ طریقہ کار کے تحت عدالت میں جمع نہ کرائی جائیں تو اس پر غور نہیں کیا جاسکتا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے اپنے نمائندے کے ذریعے دستاویز پیش کی جنہوں نے اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کی اور نہ ہی اس کی تصدیق کروائی، حتیٰ کہ دستاویزات کا اصل ریکارڈ بھی موازنہ کے لیے ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا جب کہ کہ عدالت میں دستاویزات کے گواہوں کو پیش کرنا لازمی شرط ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، لہٰذا درخواست دہندگان ان دستاویزات ثابت کرنے میں ناکام رہے اور عدالتوں نے درخواست گزاروں کو ریلیف دینے سے انکار کرتے ہوئے مقدمہ خارج کر دیا۔