پاکستان

پریکٹس پروسیجر ایکٹ؛ سپریم کورٹ میں یہ مداخلت بھی ہوئی تو اچھی ہوئی، چیف جسٹس


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ چار سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ایم کیو ایم نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کر دی۔ اس کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 191 میں لفظ “لاء” کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میری اپنے ساتھی ججز سے درخواست ہے کہ اپنے سوالات کو روک کر رکھیں، چار سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا، مسٹر صدیقی آپ ہر سوال کا جواب نا دیں، اپنے دلائل پر توجہ دیں۔
چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا کیا مطلب ہے۔چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے کہا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا ہے تو فیصلے میں لکھ لیجیے گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بنچ کا حصہ ہونے پر میرا حق ہے کہ میں سوال کروں، میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں، اگر اس طرح سوال کے دوران خلل ڈالیں گے تو یہ نامناسب ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میں سوال میں خلل نہیں ڈال رہا، وکیل کو سن لیتے ہیں پھر سوالات کا جواب آجائے گا، ہمیں پہلے ہی رائے دینے کے بجائے فیصلہ لکھنا چاہیے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے جیسی قانون سازی نہیں کر سکتی ، موجودہ قانون سے مگر یہ اصول متاثر نہیں ہوا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا لیجسلیٹیو انٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پر عائد تمام آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی، ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتاوں گا کہ پارلیمنٹ نے کیسے خلاف ورزی نہیں کی، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپروائز کرنے کا مطلب تو سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا۔وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا لیجسلیٹیو اینٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا، صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے، قانون میں اپیل لارجر بنچ کے سامنے بھیجنے کا کہا گیا، کیا یہ لارجر بنچ تمام نئے ججز پر مشتمل ہو گا؟ کیا پہلے کیس سننے والے بنچ میں ہی نئے جج شامل کر کے لارجر بنچ بنایاجائے گا؟
فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ آئین کے تحت دیا گیا ایک اختیار قانون سازی کے اختیار کو ختم کہاں کرتا ہے؟ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، رول بنانے کو مگر قانون سے مشروط کیا گیا ہے، قانون سازی پر پابندی کہاں لگائی گئی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جو آرٹیکل آپ پڑھ رہے ہیں اس کی لینگوئیج پابندی لگاتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایک چیز جو آئین میں نہ ہو اس کو قانون سازی سے بنا دینا کہاں ہوتا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس اختیار قانون سازی ہے، پارلیمنٹ نے انصاف تک رسائی کی ہی ایک قانون سازی کی ہے، جرمنی میں ایک نظام وضع کیا گیا جہاں ماسٹر آف روسٹر نہیں ہوتا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامی طور پر بنائے گئے رولز جوڈیشل اختیاراستعمال کرتے ہوئے بھی بائنڈنگ ہیں؟ کوئی بنچ بیٹھ کر رولز کو غیر آئینی کہہ سکتا ہے؟ کیا بنچ 1980 کے رولز سے متعلق آرڈر دے سکتا ہے؟
فیصل صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس کے کردار کو ریگولیٹ کرنے سے سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں ہوتا۔ جسٹس منیب اختر فیصل صدیقی سے سوال کرنے لگے تو چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو روکتے ہوئے کہا کہ پہلے میرے سوال کا جواب دیں بعد میں دوسرے سوال پر آئیں، میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا پارلیمان کہہ سکتی ہے کہ کمیٹی میں تین نہیں پانچ ججز ہوں۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ میں مداخلت ہوئی، آپ یہ کیوں نہیں کہتے ہاں مداخلت ہوئی کیونکہ چیف جسٹس اپنا کام نہیں کر رہے تھے، سادہ سی باتیں ہیں آپ کو ہچکچاہٹ کیا ہے ؟ کہہ سکتے ہیں ناں اگر یہ مداخلت بھی ہوئی تو اچھی ہوئی، کئی سال کیس نہ لگے اور ہم کہہ دیں ہماری مرضی ہم کسی کو جوابدہ نہیں؟ ہر ادارہ اپنا احتساب کرے اس سے پہلے کہ کوئی اور کرے۔
ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کرلیے۔ وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل نے ایکٹ کی حمایت میں دیئے گئے دلائل اپنالئے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

متعلقہ خبریں