انتخابات کیس کی فوری سماعت ہونی چاہیے تھی، اب تک تو فیصلہ ہوچکا ہوتا، چیف جسٹس


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) چیف جسٹس نے کہا ہے کہ انتخابات کیس کی فوری سماعت ہونی چاہیے تھی، اب تک تو فیصلہ ہوچکا ہوتا۔سپریم کورٹ میں 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ آپ نے درخواست کب دائر کی اپنی استدعا پر آئیں۔
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ درخواست میں استدعا کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات یقینی بنانے کا حکم دیا جائے، مشترکہ مفادات کونسل کا مردم شماری شائع کرنے کا آرڈر کالعدم قرار دیا جائے، ہم نے 16 اگست کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، درخواست پر نمبر لگ گیا،جلد کیس مقرر کرنے کی درخواست کے باوجود کیس نہیں سنا گیا۔
چیف جسٹس نے عابد زبیری سے کہا کہ مجھے ابھی آفس کی طرف سے ایک نوٹ بھیجا گیا ہے، اس میں تو لکھا ہےاپ نے کبھی کیس کی جلد سماعت کی درخواست ہی دائر نہیں کی، آپ صدر سپریم کورٹ بار ہو کر عدالت سے غلط بیانی کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عام انتخابات سے متعلق درخواست تو انتہائی اہمیت کا حامل مقدمہ ہے، عام انتخابات کیس تو بہت اہم مقدمہ ہے فوری سماعت ہونی چاہیئے تھی، اب تک تو اس کیس کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے پوچھا کہ کیا مردم شماری کا تعلق الیکشن کے انعقاد سے ہوتا ہے؟ اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیا یہ آئینی ضرورت ہے کہ ہر الیکشن سے قبل مردم شماری لازمی ہوگی؟۔عابد زبیری نے جواب دیا کہ نہیں یہ لازم نہیں ہے، گزشتہ مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی، پانچ اگست کو مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری جاری کرنے کی منظوری دی، سات اگست کو اس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس میں تو لکھا تھا وہ عبوری مردم شماری ہوگی، 2017 کی مردم شماری تو عبوری تھی اور صرف 2018 کے الیکشن کے لیے تھی، کیا اس کے بعد کوئی حتمی مردم شماری بھی ہوئی؟ اگر موجودہ مردم شماری کو کالعدم قرار دے دیا جائے تو الیکشن 2017 کی مردم شماری کے تحت ہوں گے؟۔