پی ٹی آئی کیخلاف کریک ڈاؤن؛ انتخابی نشان والے کھلونوں اور ماڈلز کی فروخت میں کمی


لاہور(قدرت روزنامہ) الیکشن کا دن جیسے جیسے قریب آرہا ہے انتخابی سرگرمیوں میں بھی تیزی آرہی ہے۔سیاسی کارکن اپنے امیدواروں کو ملنے والے انتخابی نشان کے کھلونے خرید رہے ہیں ،مقامی تاجروں کا کہنا ہے انتخابی نشانات والے کھلونے اورسامان مقامی سطح پر ہی تیار کیا جاتا ہے ۔
سب سے زیادہ بلے کی فروخت کی توقع تھی لیکن تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہ ملنے کی وجہ سے بلے کی فروخت نہیں ہورہی ہے ۔ تاجروں کے مطابق 2018 کی نسبت اس سال انتخابی نشانات والے کھلونوں کی قیمتوں میں 200 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔رانا اصغر لاہور کے حلقہ این اے 120 کے رہائشی ہیں ۔وہ مسلم لیگ ن کے متحرک ورکر اور مسلم لیگ ن کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار سہیل شوکت بٹ کے سپورٹر ہیں۔
رانا اصغر نے مسلم لیگ ن کے انتخابی نشان شیر کے 10 ہزار سے زائد کھلونے تیارکروائے ہیں۔ یہ کھلونے اون اور پلاسٹک دونوں سے تیار کروائے گئے ہیں۔ رانا اصغر نے بتایا کہ انہوں نے پانچ ہزار اون سے بنے شیر خریدے ہیں جبکہ پانچ ہزار پلاسٹک کے ہیں۔ یہ انتخابی نشانات والے کھلونے زیادہ ترگاڑیوں کے ڈیش بورڈ اور چھت پرلگانے کے لیے ہیں۔ اسی طرح انتخابی دفاترمیں بھی یہ نشانات سجائے جاتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے بعض امیدواروں نے بڑے سائز میں فائبر کے شیر بھی تیارکروائے ہیں جنہیں انتخابی دفاتر کے باہرسجایا گیا ہے۔ اسی طرح ترازو،سائیکل، تیتر، ہاکی، بیل، وکٹیں، کتاب، پھول، ٹرک، رکشہ،کار، بندوق، گھڑیال، تانگہ، الماری،کرین اورکرسی سمیت دیگر انتخابی نشانات والا سامان خریداجارہا ہے۔ لاہورکی شاہ عالم مارکیٹ میں کھلونوں کے بڑے تاجر عامرامین نے ایکسپریس ٹربیون کوبتایا کہ زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کو ملنے والے کھلونوں کے ہی آرڈر آتے ہیں اور یہ سامان مقامی سطح پر تیار کیا جاتا ہے۔
سب سے زیادہ شیر، ترازو،ہاکی، گھڑیال اورکرسی کے نشانات تیارکروائے جارہے ہیں۔ شیر سمیت دیگرجانوروں پرمبنی انتخابی نشانات والے اون سے بنے کھلونے بھی موجود ہیں لیکن یہ کھلونے چین سے منگوائے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن 2018 میں سب سے زیادہ بلے فروخت ہوئے تھے، لیکن ان انتخابات میں چونکہ تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہیں ملا اس وجہ سے بلے فروخت نہیں ہورہے ۔
آزاد امیدوار بھی انتخابی نشانات والے کھلونے خریدتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ اون کا بنا شیر جو 2018 میں 300 سے 500 روپے کا تھا وہ اس وقت 500 سے 800 روپے تک میں تیار ہورہا ہے۔اسی طرح پلاسٹک سے تیارہونیوالے کھلونوں کی قیمت ان کے سائز اورکوالٹی کے لحاظ سے مختلف ہے جبکہ عام کھلونے 100 سے 300 روپے تک میں فروخت ہورہے ہیں۔
تاجروں کا کہنا ہے سیاسی کارکن کھلونے سے زیادہ انتخابی نشانات والے بیج تیارکرواتے ہیں کیونکہ انہیں سینے پرسجانا آسان ہوتا ہے۔ کھلونے صرف گاڑیوں اوردفاتر میں ہی رکھے جاسکتے ہیں تاہم الیکشن کی وجہ سے کھلونوں کی فروخت میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ سیمنٹ،چاک اورفائبرسے مختلف ماڈلز تیارکرنیوالے محمدیونس نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ الیکشن کے دوران بعض سیاسی جماعتیں اوران کے امیدوار اپنے انتخابی نشانات کے ماڈلزتیارکرواتے ہیں۔
شیر، بیل، اونٹ،گھوڑا اس طرح کے ماڈلز کی قیمت ایک لاکھ 25 ہزار روپے سے پانچ لاکھ روپے تک ہے۔ قیمت کا تعین ماڈل کے سائز اور میٹریل کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ ماڈلز امیدوار اپنے گھروں اوردفاتر کی چھتوں پرسجاتے ہیں
الیکشن میں حصہ لینے والی پارٹیوں اور امیدواروں کو ملنے والے انتخابی نشان کو انتخابی مہم کے دوران تشہیر کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے جماعتیں اور امیدوار مناسب اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے والا انتخابی نشان لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
کاشف نواب پیپلزپارٹی کے سرگرم سیاسی کارکن ہیں ۔ وہ لاہور کے حلقہ این اے 127 کے رہائشی ہیں اور پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زردری کی انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے شریک ہیں۔ کاشف نواب کے مطابق انہوں نے پانچ سے دس فٹ لمبے 5 ہزار تیر تیارکروائے ہیں۔ یہ تیر لکڑی سے تیارکروائے گئے ہیں جن پر پیپلزپارٹی کے پارٹی پرچم کا رنگ کروایا گیا ہے۔
کاشف نواب کا کہنا تھا پیپلزپارٹی کا انتخابی نشان تیر ہے اس لئے انہوں نے بڑے سائز میں تیر تیارکروائے ہیں جنہیں پیپلزپارٹی کے انتخابی دفاتر اور گھروں پرسجایا جارہا ہے۔لکڑی کے تیر آرڈر پر تیارکروائے گئے ہیں اور یہ اخراجات کاشف نواب اور ان کے چند دوستوں نے مل کر اٹھائے ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کے ایک مقامی رہنما راناطارق نے بڑے سائز میں فائبر کے 10 شیر بنوائے ہیں ۔ یہ شیر انہوں نے اپنے انتخابی دفاتر پرسجانے کے علاوہ ووٹ مانگنے کے لئے حلقے میں جانیوالی گاڑیوں کے اوپر بھی سجائے ہیں۔ رانا طارق کہتے ہیں جب لوگ شیر کے نشان کو دیکھتے ہیں تو انہیں بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ ہم لوگ کس پارٹی اورامیدوار کے لئے ووٹ مانگنے آئے ہیں۔ لوگ دور سے ہی شیر کو دیکھ کرسمجھ جاتے ہیں کہ میاں نوازشریف کے کارکن آئے ہیں۔
رانا طارق کے مطابق 10 شیر 12 لاکھ روپے میں تیارکروائے گئے ہیں
جماعت اسلامی ،تحریک لبیک ،پاکستان مرکزی مسلم لیگ، جمعیت علما اسلام کے کارکنان نے جہاں بڑے سائز میں اپنے انتخابی نشانات تیار کروائے ہیں وہیں ہزاروں کی تعداد میں پلاسٹک کے بیچ بنوائے گئے ہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے انتخابی نشانات ایسے ہیں جن سے مشابہ کھلونے میسر نہیں ہیں ۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سردارسیف اللہ کہتے ہیں ان کی جماعت کا انتخابی نشان ترازو ہے ، انہوں نے اپنے گھروں کی چھتوں اوردفاتر پرلگانے کے لئے بڑے سائز میں ترازو بھی بنوائے ہیں لیکن زیادہ ترلوگ بیچ لگانا پسند کرتے ہیں ، اس لئے بیج بنوائے گئے ہیں۔
ترازو عدل وانصاف کی علامت ہے۔ لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے ایک آزاد امیدوار کا انتخابی نشان جیپ ہے جبکہ ایک امیدوار کا نشان گھوڑا ہے۔ ان کی طرح دیگرآزاد امیدوار جنہیں کرسی، اونٹ ، پھول ،قلم دوات ،آری جیسے نشانات ملے ہیں انہوں نے اپنے حلقے کے مرکزی دفتر کے سامنے بڑے سائز میں اپنا انتخابی نشان ضرور سجایا ہے۔
ایک سیاسی کارکن محمد فیصل کاکہنا تھا ان کے امیدوار کو گھوڑے کا نشان ملا ہے تو ہم نے گھوڑے کے پانچ مجسمے خریدے ہیں جو اپنے حلقے کے دفاترکے باہرلگائے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ گھوڑے انہوں نے نئے نہیں خریدے بلکہ ان کی ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں ڈیکوریشن کے طور پر پہلے سے ہی گھوڑوں کے یہ ماڈل لگائے گئے تھے، وہ ان ماڈلز کو انتخابی مہم میں استعمال کریں گے اور پھرواپس ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہی سجا دیں گے۔
مارکیٹ میں جہاں انتخابی نشانات کے کھلونے اورماڈل فروخت ہورہے ہیں وہیں الیکشن پوسٹراوراشتہارات پرنٹ کرنے والوں کاکام ٹھنڈا ہے۔ امیدوار اور ان کے سپورٹر کاغذ کے اشتہار چھپوانے کی بجائے فلیکس بورڈ تیار کروا رہے ہیں کیونکہ انہیں کروانا زیادہ آسان ہے ،ہزار وں پوسٹر چھپوانے کی بجائے چند درجن فلیکس بینرز پبلسٹی کے لئے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔