آئی ایم ایف نے پاکستان سے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کاکیوں کہا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم میں جاری عدم توازن کو دور کرنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن یعنی این ایف سی ایوارڈ پربات چیت کا دوبارہ آغاز کرے۔ ایک ارب ڈالر سے زائد قرض کی قسط کے لیے بات چیت کے ابتدائی دور کے دوران، پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے وسائل اور ذمہ داریوں کی تقسیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزید منصفانہ انتظامات کی ضرورت پر زور دیا۔ ان مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کی۔
انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق سرکاری حکام نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف نے وفاقی اور صوبائی حکام کے درمیان وسائل کی تقسیم میں تفاوت کا حوالہ دیتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
2010 میں تشکیل کردہ موجودہ فارمولے کے نتیجے میں کسی اضافی ذمہ داریوں کی منتقلی کے بغیر صوبائی حصہ کل وفاقی ٹیکسوں کے ساڑھے 47 فیصد سے بڑھ کر ساڑھے 57 فیصد ہوگیا ہے، جس سے مالیاتی عدم توازن اورعوامی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو باور کرایا ہے کہ آئینی ترمیم متعارف کرائے بغیر اور تمام صوبوں کو نئے فارمولے پر متفق کیے بغیر صوبائی حصص میں کمی نہیں کی جا سکتی۔ 2010 کے این ایف سی ایوارڈ پر 5 سال کی مدت کے لیے اتفاق کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد اس پر نظرثانی کے ضمن میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس نوعیت کی آئینی اصلاحات کے لیے صوبوں کی حمایت حاصل کرنے کے چیلنج سے نمٹنا، خاص طورپرسیاسی طور پر متنوع منظر نامے کے پیش نظر مخلوط حکومت کے لیے ایک انتہائی مشکل کام ہوگا۔آئینی ترامیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت رکھنے کے باوجود، شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے لیے چاروں صوبائی حکومتوں سے معاہدے کا حصول غیر یقینی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں این ایف سی ایوارڈ کی بھرپور وکالت کر رہی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت پاکستان تحریک انصاف کے زیرکنٹرول ہے۔
کچھ زیادہ کامیابی کے بغیر اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل یعنی ایس آئی ایف سی بھی کچھ ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے، ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا وسائل کی دوبارہ تقسیم کا مطالبہ نئے پروگرام کے لیے ہے، کیونکہ پاکستان پہلے ہی 3 ارب ڈالر کے انتظامات کے آخری جائزے کے لیے طے شدہ شرائط پوری کرچکا ہے۔
آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں کی جانب سے ضرورت سے زیادہ اخراجات کا معاملہ بھی اٹھایا ہے، جس سے رواں مالی سال کے 400 ارب روپے کے بنیادی سرپلس ہدف کو نقصان پہنچ سکتا ہے، آئی ایم ایف کو یقین دلایا گیا ہے کہ چیف سیکریٹری پنجاب آئی ایم ایف کو مالیاتی پیش رفت اور ضرورت سے زیادہ اخراجات کو ٹھیک کرنے کے لیے کیے گئے اصلاحی اقدامات سے آگاہ کریں گے۔
بنیادی سرپلس ہدف کو حاصل کرنے میں وفاقی حکومت کی کامیابی کے باوجود، اس کے اخراجات مسلسل کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ قرض کی ادائیگی پر زیادہ لاگت ہے، نتیجتاً، صوبائی حکومتوں کی جانب سے 432 ارب روپے کیش سرپلس پیدا کرنے کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ، یعنی جولائی سے جنوری تک، کا مجموعی بجٹ خسارہ 2 کھرب 7 ارب روپے رہا۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران موجودہ صوبائی اخراجات میں 57 فیصد جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 61 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد، صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومت کے ساتھ دستخط کیے گئے اپنے مفاہمت کی یادداشتوں میں ترمیم کی جس میں متوقع وفاقی محصول، سالانہ صوبائی محصولات، اور کل اخراجات کے منصوبوں کو شامل کیا گیا، جو کہ منظور شدہ نقد اضافی رقم کے مطابق ہے۔
پنجاب کی صوبائی حکومت نے ایک ضمنی مفاہمت نامے کے ذریعے اس مالی سال کی بقیہ مدت میں اپنے اخراجات کو 115 ارب روپے تک محدود کرنے کا عہد کیا ہے تاکہ اس بجٹ سے منسلک مفاہمتی یادداشت میں کیے گئے 336 بلین روپے کا سرپلس حاصل کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم نے وزیر توانائی مصدق ملک سے بھی علیحدہ ملاقات کی، آئی ایم ایف پاکستان کے سربراہ ناتھن پورٹر نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ بیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بروقت ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے قیمتوں کی اصلاح کے راستے پر قائم رہے۔ آئی ایم ایف نے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ طے پانے والے بجلی کی خریداری کے معاہدوں کا معاملہ بھی اٹھایا، جن کی میعاد ختم ہونے کے قریب ہے۔
وزارت خزانہ نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے جائزے کی کامیابی سے تکمیل کے لیے تمام ڈھانچہ جاتی معیارات، قابلیت پر کارکردگی کے معیار اور دیگر اہداف کو پورا کر لیا ہے، وزارت نے کہا کہ یہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کا حتمی جائزہ ہوگا، جس کے بعد عملے کی سطح کا معاہدہ متوقع ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کا دوسرا جائزہ 14 مارچ سے 18 مارچ 2024 تک اسلام آباد میں شیڈول ہے، ایک بار عملے کی سطح پر معاہدہ ہو جانے اور آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد ایک ارب ایک کروڑ ڈالر کی حتمی قسط جاری کی جائے گی۔
خزانہ کے ایک سرکاری ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایک مشن نے وزارت خزانہ میں محمد اورنگزیب سے ملاقات کی، وزیر خزانہ نے مشن کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستان کی اقتصادی ترقی اور استحکام کے لیے اصلاحاتی ایجنڈے پر آئی ایم ایف کے ساتھ کام کرنے کے لیے حکومتی عزم کا اظہار کیا۔
وزارت خزانہ کے مطابق، مجموعی میکرو اکنومک اشاریوں، مالیاتی استحکام پر حکومت کی کوششوں، ساختی اصلاحات، توانائی کے شعبے کی عملداری اور ریاستی ملکیت میں اداروں کی گورننس پر بات چیت ہوئی، وزیر توانائی سے ملاقات میں آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری اور زرعی ٹیوب ویلوں پر سبسڈی کے معاملے پر روشنی ڈالی گئی۔
وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ موجودہ معاشی حالات میں 15 سے 20 اداروں کی فوری نجکاری کی جانی چاہیے، خسارے میں چلنے والے ادارے ملکی معیشت کو لگی دیمک کے مترادف ہیں، کیونکہ وہ ہر سال قومی سرمائے اور خزانے میں کمی کا باعث بنتے ہیں، اور جس کا کوئی حل اور علاج نظر نہیں آتا۔
عبدالعلیم خان نے نشاندہی کی کہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران پی آئی اے کا خسارہ 500 ارب روپے ہے، جس کا کوئی جواز نہیں، انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسٹیل ملز سمیت خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری محض دوسروں کو قائل کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ ملکی معیشت کی بقا سے متعلق ایک نازک مسئلہ ہے۔