ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج

لاہور(قدرت روزنامہ)ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات کو سپریم کورت میں چیلنج کردیا گیا . سپریم کورٹ میں میاں داؤد ایڈووکیٹ نے مفاد عامہ کے تحت دائر آئینی درخواست میں 5 ہائی کورٹس کے رجسٹرارز، چاروں صوبوں او روفاقی حکومت کو فریق بنایا ہے .

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان صوابدیدای اختیارات کا غیرآئینی استعمال کر تے ہیں . ہائیکورٹس کے اکثر چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے قبل سرکاری خزانہ بادشاہوں کی طرح لُٹا تے ہیں . سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی نے ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ قبل اختیارات کے ناجائز استعمال کی بدترین مثالیں قائم کیں . عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بہترین کارکردگی کے نام پر سیکڑوں ملازمین کو غیرقانونی ایڈوانس انکریمنٹس دیے . سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے افسروں اور اہلکاروں میں 6 جولائی2021 سے 2 ایڈوانس انکریمنٹس دیے گئے . عدالتی تاریخ میں آج تک کسی چیف جسٹس کے اسٹاف کو ڈھائی برس کی مدت پر مشتمل ایڈوانس انکریمنٹ دینے کی مثال نہیں ملتی . میاں داؤد ایڈووکیٹ نے اپنی درخواست میں بتایا کہ سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل دیگر سیکڑوں ملازمین کو غیرقانونی طور پر ایڈوانس انکریمنٹ دیے گئے . ایڈوانس انکریمنٹ تبادلہ شدہ رجسٹرار ہائیکورٹ اور 2 ماہ قبل تعینات ہونیوالے رجسٹرار ہائیکورٹ کو بھی دیے گئے . سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے ریڈر اور ان کی اہلیہ سینئر سول جج کو 4 سال کی تعلیمی چھٹی بمعہ تنخواہ دینے کی منظوری دی گئی . سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے دیگر متعدد ملازمین کو بھی بغیر کسی قانونی جواز اور اختیار کے 6، 6 ماہ، ایک ایک سال کی چھٹیوں کی منظوری دی . درخواست گزار کے مطابق ریڈر اور ان کی اہلیہ کی تعلیمی چھٹی کے لیے کسی یونیورسٹی کا ریکارڈ اور قانونی تقاضا فائل کے ریکارڈ پر موجود نہیں ہے . لاہور ہائیکورٹ کے 50 سے زائد ملازمین کی سزائیں ایک دستخط سے ختم کرنے کے درجنوں نوٹیفکیشنز ایک ہی دن میں جاری کیے گئے . صوابدیدی اختیارات کے تحت سزائیں ختم کرنا قانون کے تحت قائم سروس ٹربیونلز کو غیرفعال کرنے کے مترادف ہے . لاہور ہائیکورٹ کے 2 ڈپٹی رجسٹرار شہباز انور اور شہباز اشرف کی سزائیں ختم کے انہیں بھی ایڈوانس انکریمنٹس دیے گئے . سپریم کورٹ میں دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کو سزائیں ختم کرانے کے لیے خود ہی اپنا نیا انکوائری افسر مقرر کرنے کی اجازت دی گئی . ایڈوانس انکریمنٹس کے علاوہ دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کی سزائیں ختم کر کےانہیں ترقیاں بھی دیدی گئیں . اب لاہور ہائیکورٹ کا کوئی نیا افسر دونوں ڈپٹی رجسٹرار کی فائلوں کی انکوائری کا ذمہ اٹھانے کو تیار نہیں . دونوں ڈپٹی رجسٹرارز کی فائلیں ایک برانچ سے دوسری برانچ میں گھوم رہی ہیں . درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے زیادہ تر نوٹیفکیشنز ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل 6مارچ کو جاری کیے گئے . ہائیکورٹس کے ملازمین کے ساتھ اقربا پروری کا سلوک کرکے عدلیہ کو بدنام کیا گیا . عدلیہ میں کرپشن اور اقربا پروری سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی . ہائیکورٹس کے انتظامی اختیارات فرد واحد چیف جسٹس کے بجائے انتظامی کمیٹیوں کے پاس ہونے چاہییں . درخواست گزار کے مطابق فرد واحد کو اختیارات کا استعمال کرنے کی اجازت دینے سے کرپشن اور اقربا پروری کی مثالیں قائم ہو رہی ہیں . سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے صوبائی اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کا حکم دیا جائے . سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ قبل جاری کیے گئے تمام نوٹی فکیشنز کا عدالتی جائزہ لیا جائے . لاہور ہائیکورٹس کے افسران کو دیے گئے ایڈوانس انکریمنٹس غیرقانونی قرار دے کر واپس سرکاری خزانے میں جمع کرائے جائیں . . .

متعلقہ خبریں