اسلام آباد

کسانوں سے گندم نہ خریدنے کا فیصلہ، کیا نئے بحران کو جنم دے گا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پنجاب حکومت نے کسانوں سے نہ صرف رواں سال بلکہ آئندہ سال بھی گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، اب محکمہ خوراک کا گندم خریداری میں کوئی کردار نہیں ہوگا اور کسانوں سے گندم پرائیویٹ سیکٹر خریدے گا، اس فیصلے سے گندم کی اسٹوریج اور منتقلی پر اٹھنے والے اخراجات سے محکمہ خوراک کی بچت ہو جائے گی۔
پنجاب حکومت کے اس فیصلے سے کسانوں میں بہت تشویش پیدا ہو گئی ہے، ملک بھر میں کسان فصلوں پر کئی ماہ محنت کرتا ہے اور پھر فصل کے تیار ہونے پر اس کو امید ہوتی ہے کہ اب فصل فروخت کرکے اپنی مزدوری اور کچھ نفع مل جائےگا۔
فصل کے تیار ہوتے ہی کسان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ جلد سے جلد فروخت ہو، فصل کے فروخت ہونے اور اگلی منزل تک پہنچنے تک کسانوں کو ایک پریشانی سی رہتی ہے کہ بارش یا دیگر کسی آفت سے فصل کو نقصان نہ پہنچے۔ اسی خوف کی وجہ سے مڈل مین یا اناج اسٹاک کرنے والے کسانوں سے سستی گندم خرید لیتے تھے اور پھر مارکیٹ میں گندم کی مصنوعی کمی پیدا کرکے اپنی مرضی کا نرخ متعین کرتے تھے۔
رواں سال بھی ملک کے مختلف حصوں میں کسانوں نے گندم کی فصل تیار کی، مارچ کے آخر میں حکومت اور پاسکو کی جانب سے کسانوں سے گندم کی خریداری متوقع تھی جو اس مرتبہ نہیں کی گئی، کسانوں کو اپنی فصلوں کے ضائع ہونے اور قیمت میں کمی کا خوف تھا، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال مارکیٹ میں گندم کا فی من ریٹ 5 ہزار سے تجاوز کرنے اور حکومت کے گندم کی خریداری کا سرکاری ریٹ 3900 روپے مقرر کرنے کے باوجود اس وقت کسان مجبوری میں سرکاری ریٹ سے 900 روپے فی من سے بھی کم قیمت پر گندم فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
وی نیوز نے گندم کے بیوپاریوں اور فلور ملز مالکان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اب حکومت نے کسانوں سے گندم کی خریداری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے تو اب کسانوں کے پاس متبادل آپشن کیا ہوگا؟
پنجاب میں گندم کا بیوپار کرنے والے عمیر حیدر نے وی نیوز کو بتایا کہ کسانوں نے ہزاروں روپے فی کنال ٹھیکے پر زمین لی ہوتی ہے، اس کے بعد ٹریکٹر کے مہنگے ڈیزل، بیج، مہنگی کھادوں اور دیگر اخراجات کے بعد اپنی فصل تیار کرتے ہیں۔ ’کسان اس امید پر یہ رقم خرچ کرتا ہے کہ اس کو فصل تیار ہونے کے بعد اخراجات اور ساتھ میں کچھ نفع بھی حاصل ہو جائےگا۔‘
عمیر حیدر نے کہاکہ ہر سال گندم کا ریٹ کچھ نہ کچھ اوپر جاتا ہے، فی من 100 سے 300 روپے تک کا اضافہ ہوتا ہے تاہم یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک سال میں گندم کی فی من قیمت میں 2 ہزار روپے کی کمی ہوئی ہے اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ کوئی خریدار ہی نہیں، اس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے کسانوں سے گندم کی خریداری نہ کرناہے۔
عمیر حیدر کے مطابق اگر کسانوں سے گندم سرکاری ریٹ پر نہ خریدی گئی تو کسان آئندہ سال فصل ہی کاشت نہیں کریں گے جس سے ملک میں گندم کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے اور قلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ اپنی مرضی کی قیمتیں مقرر کرکے مہنگائی میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ گندم کی کمی کے باعث ملک بھر میں گندم کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وی آئی پی فلور ملز کے مالک احمد اعجاز کا کہنا تھا کہ فلور ملز تو کسانوں سے گندم خریدتی ہی نہیں، بلکہ بیوپاریوں سے خریدتی ہیں، اور اس وقت بھی اچھی گندم کا ریٹ 3500 روپے ہے لیکن گندم بہت وافر مقدار میں دستیاب ہے۔
احمد اعجاز نے کہاکہ ہر سال حکومت 40 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کرتی تھی لیکن اس مرتبہ اگر حکومت نے گندم نہ خریدی تو کسانوں کا بہت نقصان ہوگا۔ ’اب حکومت نے آئندہ سال بھی گندم نہ خریدنے کا اعلان کیا ہے تو کسان شاید آئندہ گندم کاشت ہی نہ کریں۔‘
احمد اعجاز کے مطابق ہر سال گندم کی فصل تیار ہونے کے بعد قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا تھا جبکہ افغانستان گندم بھیجے جانے کے بعد قیمتوں کو پر لگ جاتے تھے، تاہم اس مرتبہ حکومتی اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کی جانے والی سختیوں کے باعث گندم باہر اسمگل نہیں ہوئی اس لیے بھی گندم کی طلب زیادہ نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں