افواہیں، پروپیگنڈا اور جھوٹی خبریں کیوں مقبول ہوتی ہیں؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ افواہوں، پروپیگنڈے اور جھوٹی خبروں کی مقبولیت کی وجہ یہی ہے کہ کبھی کبھی من گھڑت کہانی، حقیقت کے مقابلے میں زیادہ دلکش ہوتی ہے اور لوگوں کی توجہ اسی جانب کھنچی چلی جاتی ہے۔ اگر کہانی باز رنگ آمیزی کا ماہر ہو اور وہ انسانی نفسیات کا بھی تھوڑا بہت علم رکھتا ہو تو وہ کہانی کو ایسی شکل دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ چاہے لوگوں کے سامنے سچ موجود ہو، وہ اعتبار کہانی پر ہی کرتے ہیں۔ سازشی نظریات قبول کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک طرح کا ذہنی شارٹ کٹ مہیا کرتے ہیں۔
جیسے جیسے سوشل میڈیا کی وسعت بڑھ رہی ہے، جھوٹی خبروں کی بھرمار سے اکثر اوقات سچ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور جھوٹی کہانیاں اور سازشی نظریات لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ سازشی نظریات عالمی واقعات سے لے کر مقامی سطح تک ہر جگہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان کہانیوں اور نظریات میں جو وضاحتیں پیش کی جاتی ہیں وہ بھی وزن نہیں رکھتیں، لیکن لوگ انہیں قبول کر لیتے ہیں، اکثر اوقات اس لیے بھی کہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسا ہی ہو۔
پاکستان میں پولیو کا مرض اس لیے بھی ختم نہیں ہو سکا کہ پولیو کی ویکسین کے بارے میں سازشی تھیوریاں موجود ہیں۔ کہا جتا رہا کہ پولیو ڈراپس پینے والے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اور ان نظریات پر کچھ لوگ اس شدت سے بھروسہ کرتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملہ کرنے سے بھی چوکتے۔ کئی ورکرز اور اہلکار جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔
دوسری مثال کووڈ۔19 کا پھیلاؤ ہے۔ جس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں موجود ہیں اور اس سے بچاؤ کی ویکسین کے متعلق بھی کئی کہانیاں نہ صرف مشہور ہیں بلکہ بہت سے لوگ ان پر یقین بھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر اس سازشی تھیوری پر کہ کووڈ۔19 کی ویکسین میں خاص مقاصد کے حصول کے لیے مائیکرو چپ ڈالی گئی ہے۔
مائیکروچپ کے علاوہ بھی ویکسین کے متعلق مختلف ملکوں اور علاقوں میں اور بھی کئی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں جن پر لوگ یقین رکھتے ہیں۔ ان کی بنا پر دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے ویکسین لگوانے سے انکار کیا تھا اور ان میں سے ہزاروں کووڈ کی وبا کا لقمہ بن گئے تھے۔
امریکا میں 2020 کے انتخابات دھاندلی کی سازشی تھیوری نے کیپٹل ہل حملے کے واقعہ کو جنم دیا اور بائیڈن کی بطور صدر توثیق کا قانونی عمل کئی گھنٹوں تک رکا رہا۔ یہ امریکی تاریخ کا پہلا ایسا حیران کن واقعہ تھا۔
فیک نیوز کا پھیلاؤ آج کا مسئلہ نہیں، دہائیوں سے اس پر تحقیق جاری ہے اور اس سے قربیاً ایک ہی طرح کے نتائج سامنے آتے رہے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ہر دور میں حقائق کے بجائے سازشی تھیوریاں اور فیک نیوز لوگوں کے لیے زیادہ قابل قبول رہی ہیں۔ سازشی نظریات اس لیے زندہ رہتے ہیں کیونکہ انسان اپنے گرد و پیش کی وضاحت حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر حقائق وضاحت نہ کر پائیں تو اس خلا کو کہانیاں اور سازشی نظریات بھر دیتے ہیں۔
سازشی نظریات کی قبولیت اور پھیلاؤ میں وقت اور حالات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ویکسین میں مائیکرو چپ کے استعمال کا سازشی نظریہ ایک ایسے وقت میں پھیلا جب کرونا وبا کے باعث دنیا بھر میں لاک ڈاؤن تھا اور لوگ خوف و ہراس اور غیر یقینی صورت حال سے گزر رہے تھے۔ ایسی فضا ٹیکنالوجی سے متعلق خدشات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ جب لوگوں کے پاس یہ معلومات پہنچتی ہیں تو ان پر یقین کرنے والوں کو یہ سوچ اطمینان اور خوشی کا احساس دلاتی ہے کہ ان کے پاس اندرونی معلومات ہیں چاہے انہیں اس کی حقیقت پر شبہ ہی کیوں نہ ہو۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے جھوٹی کہانیوں اور سازشی نظریات کو پھیلانا اور ان تک پہنچنا بہت آسان بنا دیا ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز، جس میں انسان کی کچھ دلچسپی ہو، اپنے انداز میں دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جب اسے اپنی خواہش سے ملتی جلتی معلومات انٹرنیٹ یا کہیں اور سے ملتی ہیں تو وہ یہ سوچے بغیر کہ اس میں کتنا سچ ہے، فوراً قبول کر لیتا ہے۔