اسلام آباد

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیسے پی ٹی آئی کے لیے فائدہ مند، ن لیگ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)گزشتہ برس 11 اکتوبر کو چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دیا جس کے تحت مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے، بینچز کی تشکیل اور ازخود نوٹس لینے کے اختیارات چیف جسٹس کی بجائے سپریم کورٹ کے تین سینیئر موسٹ ججز یا تین رکنی ججز کمیٹی کو منتقل ہو گئے۔
دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت جو سابقہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے تین رکنی بینچ سے زیادہ خوش نہیں تھی اور عام تاثر یہ تھا کہ یہ بینچ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرتا ہے، اسی پی ڈی ایم حکومت نے مارچ 2023 میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنے کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل متعارف کروایا۔ اس بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر مملکت کے دستخط ہونا باقی تھے کہ سپریم کورٹ نے اسے عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دے کر معطل کر دیا، یوں سابق چیف جسٹس کے اختیارات اور ان کے تین رکنی بینچ کو کوئی زک نہیں پہنچی۔
موجودہ صورتحال میں جب حکومت مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں کی سماعت کے لیے منتظر نظر آتی ہے تو ان کے سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے کی راہ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہی حائل ہو گیا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو حکومت شاید اگلے ہفتے ختم کرنے کا قانون لے آئے؛ سنیٹر کامران مرتضٰی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر، سینیٹر کامران مرتضٰی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بنیادی طور پر تو مفاد عامہ کے لیے کی گئی قانون سازی تھی۔ لیکن مخصوص نشستوں کی نظر ثانی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر نہ کر کے دو جج صاحبان تھوڑا آگے چلے گئے، میرے خیال میں انہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ اس وقت ساری قوم بھی تقسیم ہے۔ اس طرح کی کوئی بات ہوتی ہے تو پھر باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ کامران مرتضٰی نے کہا کہ حکومت شاید اس قانون کو ختم کرنے کے لیے اگلے ہفتے پارلیمنٹ میں بل پیش کرے۔
عمر عطا بندیال دور میں واقعی زیادتی ہو رہی تھی؛ عمران شفیق ایڈووکیٹ
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون ہونے اور نہ ہونے، دونوں طرح سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں واقعی زیادتی ہو رہی تھی۔ جب ایک ہی تین رکنی بینچ تمام اہم مقدمات سنتا تھا اور اس میں مشاورت کا عمل شامل نہیں تھا۔ اس چیز کے سدباب کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون لایا گیا۔ اس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے، بینچ بنانے اور ازخود نوٹس لینے کے تمام اختیارات چیف جسٹس کے پاس ہیں جن کو وہ ایک بادشاہ کی طرح استعمال کرتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ اس حوالے سے مفید ثابت ہوا ہے کہ فرد واحد کے اختیارات تین افراد میں تقسیم ہو گئے ہیں اور جیسا کہ مخصوص نشستوں پر نظرثانی اپیلوں کی سماعت سے متعلق تین رکنی کمیٹی کو وجوہات جاری کرنا پڑیں جو عوام کے سامنے آ گئیں تو یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے کہ عوام کو پتہ چل گیا کہ نظرثانی اپیلوں کی سماعت میں کیا رکاوٹ ہے اور یہ سماعت کے لیے کیوں مقرر نہ ہو سکیں۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی انتخابات میں دھاندلی سمیت دیگر درخواستیں بھی زیرالتوا ہیں اور 18 جولائی کو تین رکنی کمیٹی کے اجلاس میں ان کو سماعت کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ 18 جولائی کو تین رکنی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ پندرہ روز کے بعد مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی اپیلیں غیر موثر ہو جائیں گی۔
اس سوال کے جواب میں عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی اپیلیں اگر پندرہ دن کے بعد بھی سماعت کے لیے مقرر ہوتی ہیں تو یہ غیر موثر نہیں ہوں گی بلکہ اگر نظر ثانی اپیلوں کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف آتا ہے تو مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے اراکین ان نشستوں سے محروم بھی ہو سکتے ہیں۔
مخصوص نشستوں پر نظرثانی اپیلیں مقرر نہ ہونا پریکٹس اینڈ پروسیجر کا پہلا منفی نتیجہ ہے؛ جی ایم چوہدری
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی اپیلوں کا سماعت کے لیے مقرر نہ ہو پانا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا پہلا منفی نتیجہ ہے۔ جب ایک چیف جسٹس نے ایک مقدمے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس کو سماعت کے لئے مقرر کرنے کی کوشش کی تو اس کو پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت قائم تین رکنی کمیٹی کے دوسرے دو اراکین کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون کے مزید منفی اثرات سامنے آئیں گے۔ بہت سارے انسانی حقوق اور ہنگامی نوعیت کے مقدمات جن کو سابقہ چیف جسٹس صاحبان روٹین سے ہٹ کر سماعت کے لیے مقرر کر لیا کرتے تھے اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ اس کے برعکس اب عملی صورتحال یہ ہے کہ اب ایک واحد چیف جسٹس کی بجائے اکثریت چیف جسٹس ہے۔ اب کسی مقدمے کی صورت میں اگر دو جج ڈٹے رہیں کہ اس مقدمے کو سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کرنا تو چیف جسٹس اکیلے کچھ نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نفاذ میں جس انتظامی نظام کا استعمال کیا گیا ہے اس کو پلورل ڈیسین میکنگ یا اجتماعی فیصلہ سازی کہتے ہیں اور اس کا استعمال صرف سوئٹرز لینڈ جیسے مہذب اور انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں ہو سکتا ہے جہاں حکام بالا ذاتی تعصبات سے پاک ہو کر فیصلہ سازی کرتے ہں۔ پاکستان میں پلورل ڈی سیشن میکنگ یا اجتماعی فیصلہ سازی اور مسائل پیدا کرے گی۔ چیف جسٹس کی اتھارٹی کی نفی کی جائے گی۔ جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس قانون کو فوری طور منسوخ کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ چیف جسٹس آف پاکستان کو حقیقی معنوں میں چیف جسٹس کے اختیار استعمال کرنے کا موقع مل سکے۔

متعلقہ خبریں