میگا پروجیکٹس سے مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں، حکومت آئین و قانون کے تحت مطالبات تسلیم کرنے کو تیار نہیں، ڈاکٹر ماہ رنگ
ہم انصاف کے حصول کے لیے پچھلے گیارہ دنوں سے گوادر میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں، لیکن ریاست اس دھرنے کے آئینی و قانونی مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے گوادر سمیت پورے مکران میں کرفیو نافذ کیے ہوئے ہے . گزشتہ ۱۱ دنوں سے نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند ہونے کے ساتھ ساتھ گوادر اور تربت کے زمینی رابطے دوسرے علاقوں سے منقطع کیے گئے ہیں، جس کے سبب یہاں خوراک اور دوائی کی قلت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے . اس کرفیو جیسی صورتحال میں ماہی گیر اور مزدور طبقہ شدید متاثر ہیں، جن کے روزگار کے تمام ذرائع بند کیے گئے ہیں . گوادر میں لوگوں کی حالت زندگی شدید مشکلات میں ہے، لیکن یہ ریاست اپنی درندگی اور وحشت کو ختم کرنے کو کسی بھی صورت تیار نہیں ہے . میں بلوچ عوام سمیت بین الاقوامی دنیا سے اپیل کرتی ہوں کہ ہمارے گرفتار ساتھیوں کی رہائی اور گوادر میں جاری ریاستی مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں . بلوچستان میں ریاستی جبر کیخلاف آپ جس طرح آواز اٹھا سکتے ہیں، اٹھائیں . اس وقت خاموشی ہماری اجتماعی موت اور ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے گی . علاوہ ازیں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا معاشی استحصال ہو رہا ہے، بلوچستان میں جاری میگا پراجیکٹ سے مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں مل سکتا، سیاسی جماعتیں بلوچوں کی آواز نہیں بن رہیں، بلوچ راجی مچی کے بہت سے عزائم ہیں، جس میں تمام بلوچوں کو اکٹھا کرنا، بلوچ نسل کشی، بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیاں اور فیک انکاﺅنٹر کیخلاف ان کی آواز کو منظم کرنا، بلوچستان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوگیا ہے اور حکومت بی وائے سی کے مطالبات آئین و قانون کے تحت تسلیم کرنے کو تیار نہیں . . .